ہماری کمپنی کا نام ہے، میتھر ورلڈ (آئی ٹی ای ایس) جس کا کاروبار تین قسموں پر مشتمل ہے:
1۔ نیٹ ورک مارکیٹنگ: یعنی کمپنی کا اپنا ایک ڈیجیٹل کوائن ہے ،جس کو لوگ کمپنی سے خرید کر اسٹاک کر لیتے ہیں اور قیمت بڑھنے پر اس کو نفع کے ساتھ فروخت کر دیتے ہیں۔
2۔کمپنی کے اپنے کچھ پروڈکٹس ہیں ،جن کو لوگ کمپنی سے خریدتے ہیں جیسے کہ اے سی ، پنکھے ، پاور بینک ، ریموٹ کنٹرول وغیرہ۔
3۔کمپنی کے کچھ شیئرز ہیں جن کو لوگ کمپنی سے ڈائریکٹ یا کسی واسطہ سے خرید لیتے ہیں، جب کچھ منافع ہوتا ہے تو ان کو فروخت کر دیتے ہیں۔ سودی کاروبار کی کوئی بھی شکل و صورت کمپنی کے کسی بھی پروگرام میں داخل نہیں ہے۔ کمپنی کے کوائن اور شیئرز کا کاروبار آن لائن ہوتا ہے، جب کہ پروڈکشن کا کام آف لائن ہوتا ہے دیگر سب ہی کاروبار کی طرح، اس کے لیے کمپنی کے مختلف شہروں میں دفاتر اور دکانیں بنی ہوئی ہیں۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ ہماری کمپنی کے کاروبار کی ان تین قسموں میں سے شرعی طور پر کون سی شکل جائز ہوگی اور کن صورتوں میں لوگوں کا ہماری کمپنی کے ساتھ جڑ کر کاروبار کرنا ناجائز ہوگا ؟ وضاحت مطلوب ہے ؟
واضح رہے کہ ڈیجیٹل کوائن ایک فرضی کرنسی ہے ،اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، اس کرنسی میں حقیقت میں کوئی مبیع یعنی مادی چیز نہیں ہوتی اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاونٹ میں کچھ حساب کتا ب کے عدد آجاتے ہیں؛ لہذا مذکورہ کمپنی میں اس قسم کا کاروبار کرنا شرعاً جائز نہیں ۔
البتہ اس کے علاوہ مذکورہ کمپنی میں مصنوعات کی خرید وفروخت چوں کہ دیگر عام کاروباروں کی طرح ہوتا ہے ،اس لیے اس قسم کا کاروبار کرنا شرعاً درست ہے ۔اسی طرح مذکورہ کمپنی کا شیئرز خریدنے میں اگر کسی غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ کرنا پڑے تو اس طرح کا کام بھی جائز ہوگا ۔البتہ کوئی چیز خریدنے کے بعد آگے فروخت کرنے کے لیے خریدی ہوئی چیز پر قبضہ کرنا ضروری ہے ورنہ قبضہ سے پہلے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا ۔
اور شیئرز کے بارے میں حکم یہ ہے کہ ادارے یا کمپنی کے جامد اثاثہ موجود ہو اور اس میں لگی ہوئی رقم حلال ہو اور مصنوعات بھی حلال ہو ،کسی قسم کے سودی قرضہ نہ ہو اور شرائط کے مطابق کل منافع کو تقسیم کیا جاتا ہو تو ایسے ادارے یا کمپنی کا شیئر خریدنا جائز ہے ورنہ نہیں ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لايكون مالًا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصًا عن الكشف الكبير.
وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم،» ... وفي التلويح أيضًا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك ... وفي البحر عن الحاوي القدسي: المال اسم لغير الآدمي، خلق لمصالح الآدمي وأمكن إحرازه والتصرف فيه على وجه الاختيار، والعبد وإن كان فيه معنى المالية لكنه ليس بمال حقيقة حتى لايجوز قتله وإهلاكه."
(کتاب البیوع،ج:4،ص:501،سعید)
تجارت کے مسائل کاانسائیکلوپیڈیا میں ہے :
"بٹ کوائن" محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، لہذا موجودہ زمانے میں " کوئن" یا "ڈیجیٹل کرنسی" کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکا ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، اس لیے " بٹ کوائن" یا کسی بھی " ڈیجیٹل کرنسی" کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے."
(ج:2،ص:92،بیت العمار)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503102607
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن