بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میتھر ورلڈ کمپنی میں کام کا حکم


سوال

ہماری کمپنی کا نام ہے، میتھر ورلڈ (آئی ٹی ای ایس) جس کا کاروبار تین قسموں پر مشتمل ہے:

1۔ نیٹ ورک مارکیٹنگ: یعنی کمپنی کا اپنا ایک ڈیجیٹل کوائن ہے ،جس کو لوگ کمپنی سے خرید کر اسٹاک کر لیتے ہیں اور قیمت بڑھنے پر اس کو نفع کے ساتھ فروخت کر دیتے ہیں۔

2۔کمپنی کے اپنے کچھ پروڈکٹس ہیں ،جن کو لوگ کمپنی سے خریدتے ہیں جیسے کہ اے سی ، پنکھے ، پاور بینک ، ریموٹ کنٹرول وغیرہ۔

3۔کمپنی کے کچھ شیئرز ہیں جن کو لوگ کمپنی سے ڈائریکٹ یا کسی واسطہ سے خرید لیتے ہیں، جب کچھ منافع ہوتا ہے تو ان کو فروخت کر دیتے ہیں۔ سودی کاروبار کی کوئی بھی شکل و صورت کمپنی کے کسی بھی پروگرام میں داخل نہیں ہے۔ کمپنی کے کوائن اور شیئرز کا کاروبار آن لائن ہوتا ہے، جب کہ پروڈکشن کا کام آف لائن ہوتا ہے دیگر سب ہی کاروبار کی طرح، اس کے لیے  کمپنی کے مختلف شہروں میں دفاتر اور دکانیں بنی ہوئی ہیں۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ ہماری کمپنی کے کاروبار کی ان تین قسموں میں سے شرعی طور پر کون سی شکل جائز ہوگی اور کن صورتوں میں لوگوں کا ہماری کمپنی کے ساتھ جڑ کر کاروبار کرنا ناجائز ہوگا ؟ وضاحت مطلوب ہے ؟

وضاحت :کمپنی کے شیئرز کی خرید و فروخت کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ بائع اور مشتری کسی بھی معروف و مشہور ایکسچینج پلیٹ فارم پر جائیں ، دیکھیں ، اور بذات خود بیع و شراء کی شرائط کا لحاظ رکھ کر خرید و فروخت کا معاملہ کریں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کمپنی کے آفسس یا ایکزیگوٹس سے بات کر کے، کسی بھی ایکسچینج پلیٹ فارم پر جائے بنا ہی کمپنی کے شیئرز خرید لیں اور قابض ہوں۔ بالواسطہ یا بلا واسطہ کا یہ مطلب ہے۔
نوٹ:۔ بالواسطہ یعنی کسی بھی ایکسچینج پلیٹ فارم سے کمپنی کے شیئرز خریدنے یا بلا واسطہ یعنی ڈائریکٹ کمپنی سے شیئرز خریدنے جیسی دونوں صورتوں میں بائع اور مشتری دونوں مکمل طور پر قابض ہوتے ہیں تب معاملہ آگے بڑھتا ہے۔ تاکہ معاملہ میں کسی طرح کی دشواری، فراڈ اور لڑائی جھگڑا پیش نہ آئے۔
ہماری کمپنی ایک رجسٹرڈ کمپنی ہے جس کے پاس اپنی جائیداد ہے پراپرٹی ہے۔ الیکٹرانک سامان کا اپنا کاروبار ہے۔
کمپنی کا سرمایہ جائز اور حلال اشیاء پر مبنی ہے۔ اس میں سود ، چوری یا رشوت جیسی ناجائز چیزوں کی آمیزش نہیں ہے۔
کمپنی کو چلانے والی جو بنیادی ٹیم ہے وہ سودی کاروبار سے الگ تھلگ ہے۔ کسی حرام اور ناجائز طریقہ سے کاروبار کرنے والے کسی ادارہ کی کوئی شراکت داری نہیں ہے۔

جواب

واضح رہے کہ      ڈیجیٹل کوائن   ایک فرضی کرنسی ہے ،اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، اس کرنسی میں حقیقت میں کوئی مبیع یعنی مادی چیز نہیں ہوتی اور  اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاونٹ  میں کچھ  حساب کتا ب کے  عدد آجاتے ہیں؛  لہذا  مذکورہ کمپنی میں اس قسم کا کاروبار کرنا شرعاً جائز نہیں ۔

البتہ  اس کے علاوہ مذکورہ کمپنی میں مصنوعات کی خرید وفروخت  چوں کہ دیگر عام کاروباروں کی طرح ہوتا ہے ،اس لیے اس قسم کا کاروبار کرنا شرعاً درست ہے ۔اسی طرح مذکورہ کمپنی کا شیئرز  خریدنے میں    اگر کسی  غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ کرنا پڑے تو اس طرح کا کام بھی جائز ہوگا ۔البتہ کوئی چیز خریدنے کے بعد آگے فروخت کرنے کے لیے خریدی ہوئی  چیز پر  قبضہ کرنا ضروری ہے ورنہ قبضہ سے پہلے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا ۔

اور شیئرز کے بارے میں حکم یہ ہے کہ ادارے یا کمپنی کے جامد اثاثہ موجود ہو اور اس میں لگی ہوئی رقم حلال ہو اور مصنوعات بھی حلال ہو ،کسی قسم کے سودی قرضہ نہ ہو اور شرائط کے مطابق کل منافع کو تقسیم کیا جاتا ہو تو ایسے ادارے یا کمپنی کا شیئر خریدنا جائز ہے ورنہ نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لايكون مالًا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصًا عن الكشف الكبير.

وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم،» ... وفي التلويح أيضًا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك ... وفي البحر عن الحاوي القدسي: المال اسم لغير الآدمي، خلق لمصالح الآدمي وأمكن إحرازه والتصرف فيه على وجه الاختيار، والعبد وإن كان فيه معنى المالية لكنه ليس بمال حقيقة حتى لايجوز قتله وإهلاكه."

(کتاب البیوع،ج:4،ص:501،سعید)

تجارت کے مسائل کاانسائیکلوپیڈیا میں ہے :

"بٹ کوائن"  محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، لہذا موجودہ  زمانے میں   " کوئن" یا   "ڈیجیٹل کرنسی"  کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکا ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، اس لیے   " بٹ کوائن" یا کسی بھی   " ڈیجیٹل کرنسی" کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے."

(ج:2،ص:92،بیت العمار)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102607

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں