بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مفقود كا نکاحِ ثانی کے بعد واپس آنے کا حکم


سوال

کسی کی بیوی کو یہ معلوم ہو کہ اس کے شوہر کا جنگ میں انتقال ہوگیا ہے اور وہ اپنی عدت پوری کرکے کسی اور سے نکاح کر لیتی ہے، مگر کچھ عرصہ بعد پہلا شوہر واپس زندہ لوٹ آتا  ہے،تو اس سلسلے میں بیوی کے دوسرے نکاح کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جس عورت کا شوہر لاپتہ ہو گیا ہو اس کی بیوی اپنا مقدمہ مسلمان قاضی کی عدالت میں پیش کرے اور گواہوں سے ثابت کرے کہ میرا نکاح فلاں شخص کے ساتھ ہوا تھا، پھر گواہوں سے اس کا مفقود اور لاپتا ہونا ثابت کرے، اس کے بعد قاضی خود اپنے طور پر اس کی تفتیش وتلاش کرے، جہاں اس کے جانے کا غالب گمان ہو وہاں آدمی بھیجا جائے، اور جس جس جگہ جانے کا غالب گمان نہ ہو، صرف احتمال ہو، وہاں خط ارسا ل کرنے کو کافی سمجھے، اور خطوط ارسال کرکے تحقیق کرے، اور اگر اخبارات میں شائع کردینے سے خبر ملنے کی امید ہو تو یہ بھی کرے۔
    الغرض تفتیش وتلاش میں پوری کوشش کرے، اور جب پتا چلنے سے مایوسی ہوجائے تو قاضی، عورت کو چار سال تک مزید انتظار کا حکم دے، پھر ان چار سالوں کے اندر بھی اگر مفقود کا پتا نہ چلے تو عورت قاضی کے پاس دوبارہ درخواست کرے، جس پر قاضی اس کے مردہ ہونے کا فیصلہ سنا دے، اس کے بعد چار ماہ دس دن عدت گزار کر عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا اختیار ہوگا۔
    اور اگر چار سال تک عورت عفت اور پاکدامنی کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی اور گناہ  کا شدید خطرہ ظاہر کرے تو ایسی صورت میں چار سال کے انتظار کا حکم ضروری نہیں، بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ شوہر کے غائب ہونے کے وقت سے اب تک کم از کم ایک سال کا عرصہ گزرچکا ہے یا نہیں؟ اگر گزر چکا ہو تو قاضی مزید مہلت دیے بغیر اس وقت بھی نکاح ختم کرسکتا ہے، اسی طرح اگر زنا میں مبتلا ہونے کا خطرہ تو نہیں، لیکن مفقود کا اتنا مال موجود نہیں اس کی بیوی کے نان و نفقہ کے لیے کافی ہو، یا بیوی کے لیے مفقود کے مال سے نان ونفقہ حاصل کرنا مشکل ہو تو اس صورت میں اگر نان ونفقہ دینے کے بغیر کم از کم ایک ماہ گزرا ہو تو  شدیدمجبوری کی حالت میں قاضی نکاح ختم کرسکتا ہے۔
    واضح رہے کہ آخری ان دونوں صورتوں میں عورت عدتِ وفات کے بجائے عدتِ طلاق گزارے گی، جو قاضی کے فیصلے کے وقت سے شمار ہوگی۔

اور اگر دوسری شادی کے بعد پہلا شوہر لوٹ آئے تو  مذکورہ خاتون کا نکاح اس کے  پہلے شوہر سے بدستور قائم رہےگا، دوسرے شوہر کے ساتھ اس کا نکاح خود بخود باطل ہو جائے گا؛لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عورت کے ذمہ دوسرے شوہر سے فوراً علیحدگی لازم ہے اور اگر اس خاتون کی دوسرے نکاح کی رخصتی بھی ہو گئی ہے، تو  پہلے شوہر کو اس کے ساتھ صحبت کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک وہ دوسرے شوہر کی عدت پوری نہ کرلے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"‌وأما ‌تخييره ‌إياه ‌بين ‌أن ‌يردها ‌عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر - رضي الله عنه - في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت، وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حيا إنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي - رضي الله عنه -، فإنه كان يقول ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر وبهذا كان يأخذ إبراهيم - رحمه الله - فيقول: قول علي - رضي الله عنه - أحب إلي من قول عمر - رضي الله عنه -، وبه نأخذ أيضا؛ لأنه تبين أنها تزوجت، وهي منكوحة ومنكوحة الغير ليست من المحللات بل هي من المحرمات في حق سائر الناس كما قال الله تعالى: {والمحصنات من النساء} [النساء: 24] فكيف يستقيم تركها مع الثاني، وإذا اختار الأول المهر، ولكن يكون النكاح منعقدا بينهما فكيف يستقيم دفع المهر إلى الأول، وهو بدل بضعها فيكون مملوكا لها دون زوجها كالمنكوحة إذا وطئت بشبهة، فعرفنا أن الصحيح أنها زوجة الأول، ولكن لا يقربها لكونها معتدة لغيره كالمنكوحة إذا وطئت بالشبهة."

(كتاب المفقود، ج:11، ص:37، ط:دار المعرفة)

مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں:

’’اس صورت میں عورت کا شرعی حکم یہ ہے کہ عدالت میں دعویٰ تفریق بوجہ مفقود الخبری شوہر دائر کرے، حاکم بعد تحقیقات ایک سال کی مدت انتظار کے لیے مقرر کردے، اگر اس عرصہ میں زوجِ غائب نہ آئے تو نکاح فسخ کردے، تاریخِ فسخ سے عدت گزار کر دوسرا نکاح کرلے۔ ایک سال کی مدت مقرر کرنا ضروری ہے، ذرائعِ رسل ورسائل کا وسیع ہونا اس شرط کے خلاف نہیں ہے، اور نہ ذرائع کی وسعت اس امر کو لازم ہے کہ گم شدہ شوہر کا پتا معلوم ہوجائے کہ وہ زندہ ہے کہ نہیں،آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کے متعلق معلوم کرنے کے لیے کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، تمام ذرائع استعمال کرلیے جاتے ہیں اور فیصلہ کرلیا جاتاہے، لیکن بعد میں فیصلہ غلط ہوتاہے،غرض یہ کہ ایک سال کی مدت اس مصلحت کے لیے ہے کہ امکانی حد تک شوہر کے متعلق کسی نتیجہ پر پہنچاجائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم‘‘

(رجسٹر نمبر 1، صفحہ نمبر 27)

احسن الفتاویٰ میں ہے:

"زوجہ مفقود کے لیے قاضی کی عدالت میں فسخِ نکاح کی درخواست کے بعد جو مزید چار سال کے انتظام کا حکم دیا گیا ہے یہ اس صورت میں ہے جب کہ عورت کے لیے نفقہ اور گزارے کا بھی کچھ انتظام ہو اور عفت اور عصمت کے ساتھ یہ مدت گزارنے پر قدرت بھی ہو، اور اگر اس کے نفقہ اور گزارے کا کوئی انتظام نہ ہو، نہ شوہر کے مال سے، نہ کسی عزیز و قریب یا حکومت کے تکفل سے اور خود بھی محنت و مزدوری، پردہ و عفت کے ساتھ کر کے اپنا گزارا نہیں کر سکتی، تو جب تک صبر کر سکے، شوہر کا انتظار کرے، جس کی مدت ایک ماہ سے کم نہ ہو، اس کے بعد قاضی یا کسی مسلمان حاکم مجاز کی عدالت میں فسخِ نکاح کا دعویٰ دائر کرے، اور اگر نفقہ اور گزارے کا انتظام ہے مگر بغیر شوہر کے رہنے میں اپنی عفت و عصمت کا اندیشہ قوی ہے، تو سال بھر صبر کرنے کے بعد قاضی کی طرف مرافعہ کرے، اور دونوں صورتوں میں گواہوں کے ذریعہ یہ ثابت کرے کہ اس کا شوہر فلاں اتنی مدت سے غائب ہے، اور اس نے اس کے لیے کوئی نان و نفقہ نہیں چھوڑا، اور نہ کسی کو نفقہ کا ضامن بنایا، اور اس نے اپنا نفقہ اس کو معاف بھی نہیں کیا، اور اس عورت پر حلف بھی کرے، اور دوسری صورت یعنی عفت کے خطرے کی حالت میں قسم کھائے کہ میں بغیر شوہر کے اپنی عفت قائم نہیں رکھ سکتی، قاضی کے پاس جب یہ ثبوت مکمل ہو جائے، تو قاضی اس کو  کہہ دے کہ میں نے تمہارا نکاح فسخ کر دیا، یا شوہر کی طرف سے طلاق دے دی، یا خود عورت کو اختیار دے دے کہ وہ اپنے نفس پر طلاق واقع کرے اور جب عورت اپنے نفس پر طلاق واقع کرے تو قاضی اس طلاق کو نافذ کر دے۔"

(جلد:5، صفحہ:422، طبع: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144503102502

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں