بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح فضولی کی ایک صورت اور اس کا حل


سوال

مسجدمیں ایک نکاح ہوا دولہا مسجد میں تھا،اور دلہن اپنے گھر میں تھی،نکاح کے وقت دونوں ایک جگہ نہیں تھے،مولوی صاحب نے نکاح کی کاروائی کی اور دلہن کے وکیل کو          دلہن کے پاس ایجاب کے لئے بھیجا، دلہن کا وکیل جب دلہن کے پاس گیا اس نےدلہن سے دولہے کےنام کے بجائے دولہے کےبھائی کا نام بتاکر اجازت لی،جس پر دلہن نے ہاں بھی کردی،      مثلاً دولہا کا نام عرفان تھا لیکن دلہن کے وکیل نے اجازت دولہا کے بھائی عمران کے نام سےاجازت  لے لی، جس پر دلہن نے عمران دولہا کے بھائی کے نام پر اجازت دے دی حالاں کہ دولہن دولہا کا نام بھی جانتی ہے اب پوچھنا یہ ہے کہ  کیا نکاح ہو جائے گا؟

چند امور کی وضاحت کرکے سوال دوبارہ ارسال کیجئے،ان شاء اللہ جواب دے دیا جائے گا۔

1)اجازت  میں تو   دولہن کے سامنے عمران کا   نام لیا گیا ہے ،لیکن مجلس نکاح میں  ایجاب اور  قبول کس کے نام پر  ہوا ہے  ؟

2) اور رخصتی کس کے ساتھ ہوئی ہے؟

جواب تنقیح

پہلے دولہن سے دولہا عرفان کی بجائے عمران کے نام کی اجازت لی گئی۔

مجلس نکاح میں عرفان نام سے ایجاب و قبول ہوا۔

یاد رہے  نکاح کے وقت دلہن اور دلہا ایک ساتھ نہیں تھے۔

مسجد میں نکاح ہوا تھارخصتی عرفان کے ساتھ ہوئی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرچہ دولہن سے دولہا عرفان کی بجائےغلطی سے اس کے بھائی  عمران کے نام کے ساتھ نکاح کی  اجازت لی گئی،لیکن مجلس نکاح میں عرفان نام سے ایجاب و قبول ہوا،  تو دلہن کا نکاح عر فان کیساتھ ہونا،دلہن کی  قولاً یا فعلاً اجازت پر موقوف تھا،جب بعد میں رخصتی  بھی عرفان کے ساتھ ہوئی،تو دلہن کا رخصتی عرفان کے ساتھ کرنا اس کی طرف سے فعلاً رضامندی شمار ہوگی ،لہذا مذکورہ  نکاح   شرعاً  درست ہوا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أن ‌نكاح ‌الفضولي صحيح موقوف على الإجازة بالقول أو بالفعل."

(کتاب الطلاق،ج:3، ص:242، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

"وبه صرح في الخانية بقوله الولي إذا زوج الثيب فرضيت بقلبها ولم تظهر الرضا بلسانها كان لها أن ترد لأن المعتبر فيها الرضا باللسان أو الفعل الذي يدل على الرضا نحو التمكين. من الوطء وطلب المهر وقبول المهر دون قبول الهدية وكذا في حق الغلام."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌باب الولي، ج:3، ص:62، ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وتثبت الإجازة لنكاح الفضولي بالقول والفعل، كذا في البحر الرائق رجل زوج رجلا امرأة بغير إذنه فبلغه الخبر فقال: نعم ما صنعت، أو بارك الله لنا فيها، أو قال: أحسنت، أو أصبت؛ كان إجازة، كذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار اختاره الشيخ أبو الليث، كذا في المحيط وإذا علم أنه أراد به الاستهزاء بسوق الكلام على وجه الاستهزاء فحينئذ لا يكون إجازة ولو هنأه القوم فقبل التهنئة كان إجازة هكذا في فتاوى قاضي خان وفي الحجة قال الفقيه: وبه نأخذ، كذا في التتارخانية"

(کتاب النکاح، باب فی الوکالة بالنکاح، ج:1، ص:299، ط:رشیدیه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں