بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

MDC کمپنی میں پیسے لگا کر منافع کمانے کا حکم


سوال

1)ایک کمپنی ہے،جس کا نام MDCہے، اس میں  ڈالروں کا  آن لائن کام ہوتا ہے،  وہ اس طرح کہ کمپنی کی جوائننگ فیس  21 سو روپے ہوتی ہے اور اس کے بعد آپ نے اپنے ساتھ دو بندوں کو جوائن کرانا ہوگا ،اور دو سے زیادہ لوگوں کو بھی جوائن کراسکتے ہیں، لیکن دو کو جوائن کرانا لازمی ہے، اس کام کے لیے جو اس کمپنی میں ہوتا ہے جب ایک بندہ جوائن ہوتا ہے تو کمپنی ہمیں ایک ڈالر دیتی ہے، اسی طرح ہر ایک بندے کو جوائن کرانے پر ہر بار کمپنی ایک ڈالر دیتی ہے، کام یہ ہے کہ آپ نے سب سے پہلے پانچ ڈالر خریدنے ہے پھر ان کی کمپنی میں بوسٹنگ کرنی ہے ،بوسٹنگ کے معنی بڑھانے کےہیں ،جب آپ پانچ ڈالر کمپنی میں بوسٹنگ کریں گے تو کمپنی ہمیں 24 یا 32 گھنٹے کے بعد پانچ ڈالر منافع دیتی ہے، اسی طرح اگر دس ڈالر بوسٹنگ کریں گے تو کمپنی ہمیں 32 گھنٹے کے بعددس ڈالر دےگی  ۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ کمپنی جو ہمیں پانچ یا دس ڈالر منافع دیتی ہے ،یہ صحیح ہے یا نہیں؟ 

جواب

 کرنسی کی بیع شرعاً "بیعِ صرف" ہے، جس  میں بدلین (جانبین کی کرنسی) پر مجلس میں قبضہ ضروری ہےاور  دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے، لہذا ایسے تمام سودے ناجائز ہیں، جن میں کرنسی کی خریدوفروخت ادھار ہوتی ہے  یا اگر  خرید و فروخت  نقد ہوتی ہے، مگر عقد کے دونوں فریق  یا کوئی ایک فریق اپنے حق پر قبضہ نہیں کرتا، الحاصل باہمی  تقابض نہ پائےجانے کی وجہ سے ایسے سودے فاسد ہوں گے اور نفع حلال نہ ہوگا۔

انٹرنیٹ پر کرنسی کے کاروبار میں عموماً  کرنسی کی خرید و فروخت ادھار ہوتی ہے، اور بعض صورتوں میں  نہ  کرنسی ادا کی جاتی ہے، اور نہ ہی کرنسی  وصول کی جاتی ہے، بلکہ محض سودے ہوتے ہیں اور کرنسی کے مارکیٹ انڈیکس کے فرق سے نفع بنالیا جاتا ہے، یا انٹرنیٹ پر سودے ہوتے رہتے ہیں اور اکاؤنٹ میں رقم باقی رہتی ہے اور  دن کے آخر میں رقم میں نفع کا اضافہ یا نقصان کی کٹوتی کردی جاتی ہے۔ لہذا ان صورتوں پر مشتمل سودے حلال نہیں ہوتے،لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بالا خرابیوں کی وجہ سے آن لائن ڈالروں کا کاروبار ناجائز ہے۔

اسی طرح مذکورہ کمپنی میں شامل ہونے کے لیے ،یا ایک ڈالر کو حاصل کرنے کے لیے دوسرے کو جوائن  اور شامل کرنے کی شرط لگانا  جوئے کی ایک نئی شکل ہے،جو کہ  شرعاً درست نہیں،       لہذامذکورہ کمپنی کے ساتھ منسلک  ہونا اور دوسروں کو اس میں شامل کراکے کمیشن وصول کرنا، ناجائز ہے۔

فتح القدیر  میں ہے:

"(ولا بد من قبض العوضين قبل الافتراق) لما روينا، ولقول عمر -رضي الله عنه-: وإن استنظرك أن يدخل بيته فلاتنظره، ولأنه لا بد من قبض أحدهما ليخرج العقد عن الكالئ بالكالئ ثم لا بد من قبض الآخر تحقيقًا للمساواة فلايتحقق الربا، ولأن أحدهما ليس بأولى من الآخر فوجب قبضهما سواء (قوله: ولا بد من قبض العوضين قبل الافتراق) بإجماع الفقهاء. وفي فوائد القدوري: المراد بالقبض هنا القبض بالبراجم لا بالتخلية يريد باليد، وذكرنا آنفا أن المختار أن هذا القبض شرط البقاء على الصحة لا شرط ابتداء الصحة لظاهر قوله: فإذا افترقا بطل العقد، وإنما يبطل بعد وجوده وهو الأصح. وثمرة الخلاف فيما إذا ظهر الفساد فيما هو صرف يفسد فيما ليس صرفًا عند أبي حنيفة - رحمه الله -، ولايفسد على القول الأصح". 

(كتاب البيوع،باب الصرف، ج: 6، 260، ط: رشیدیة)

الموسوعة الفقهیة   میں ہے :

"وقال المحلي: صورة القمار المحرم التردد بين أن يغنم وأن يغرم".

(39/404، طبع الوزارة)

البنایہ شرح الہدایۃ میں ہے:

"وقد نهى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عن بيع الملامسة والمنابذة. ولأن فيه تعليقًا بالخطر".

"م: (ولأن فيه) ش: أي ولأن في كل واحد من هذه البيوع م: (تعليقا) ش: أي تعليق التمليك م: (بالخطر) ش: وفي " المغرب "، الخطر: ‌الإشراف ‌على ‌الهلاك، قالت الشراح: وفيه معنى القمار لأن التمليك لا يحتمل التعليق لإفضائه إلى معنى القمار".

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج: 8، ص: 158، ط: دار الكتب العلمية - بيروت، لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں