بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

روپیے کے بدلے ڈالر ادھار خریدنے کا حکم


سوال

 زید نے بکر سے خالد کے حکم پر (1000) ہزار ڈالر 3,20000 تین لاکھ بیس ہزار روپے کے عوض ایک مہینے کے ادھار پر خرید لیے، حالانکہ اس عقد کےدن ہزار ڈالر کی قیمت تین لاکھ 300000 روپے بنتی تھی ، پھر زید نے یہ ایک ہزار ڈالر صرف تین لاکھ کے عوض بیچ دیےاور پھر خالد کے حکم پر خالد کے دائن کو یہ تین لاکھ روپے دے دیے ۔جب مہینہ پورا ہوا تو بائع بکر نے زید مشتری سے اپنے ایک ہزار ڈالر کا ثمن تین لاکھ بیس ہزار روپے کا مطالبہ کیاتو زید مشتری نے اپنے آمر خالد سے کہا کہ بکر مجھ سے اپنے تین لاکھ بیس ہزار روپے مانگ رہا ہے ہیں کیونکہ میں نے آپ کے حکم پر بکر سے ڈالر اس روز کی قیمت سے زیادہ قیمت پر خریدا تھااور پھر آپ ہی کے حکم پر ڈالر اسی روز کی قیمت پر بیچ دیاتھا اور آپ کے حکم کے مطابق آپ کے دائن کو یہی تین لاکھ روپےدیے تھے۔ لیکن اب خالد کہتاہے کہ آپ (زید) نے سودی معاملہ  کیا ہے ، میں زید کو صرف تین لاکھ روپے دونگا ، جو زید نے میرے دائن کو دیے تھے ، باقی بیس ہزار روپے میں نہیں دونگا،  آپ سے بکر جو اضافی رقم مانگ رہاہے، اس سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ بیس ہزار روپے بکر کا حق بنتا ہے یا نہیں ؟ اور بالفرض اگر بکر کا حق بنتاہے تو زید خالد سے اس بیس ہزار روپے کا مطالبہ کرسکتا ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ کرنسی کے بدلے کرنسی کی جو بیع  ہوتی ہے اس کی حیثیت بیع صرف کی ہے، اس لیے اس طرح کی بیع میں ادھار جائز نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ سودا نقد کیا جائے اور مجلس عقد میں ہی ہاتھ کے ہاتھ  جانبین سے عوضین پر قبضہ بھی ہوجائے ،ورنہ بیع باطل  ہوجائے گی،اسی طرح  ڈالر کی اد ھار خرید و فروخت کرنا جائز نہیں،یعنی جب ڈالر خریدا جائے تو اسی مجلس میں ڈالر پر قبضہ کرلیا جائے اور ساتھ ہی اس کی رقم بھی بیچنے والے کے حوالے کردی جائےاور جب اس کو بیچا جائے تو اسی وقت اس کی قیمت پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ ڈالر بھی خریدار کو حوالہ کردیا جائے،بصورتِ دیگر یہ معاملہ سودی ہوجانے کی وجہ سے جائز نہ ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں زید نے بکر سے خالد کے حکم پرجو  ایک ہزار ڈالر تین لاکھ بیس ہزار روپے کے عوض ایک مہینے کے ادھار پر خرید ے تو شرعاً یہ سودی معاملہ ہے، اور اس کو ختم کرکے اصل رقم واپس کرنا لازم ہے ، لہذا  زید نے بکر سے ایک ہزار ڈالر لیے تھے ، تو اب  وا پس کرتے ہوۓ زید  ،بکر کو  ایک ہزار ڈالر ہی  واپس   کرنے کا پابند ہوگا    ، اور یہ ایک ہزار ڈالر چوں کہ خالد کے کہنے پر خریدے تھے ، اس لیے زید خالد سے یہ ایک ہزار ڈالر وصول کرنے کا حق رکھتا ہے۔

"الفتاوى الهندية"میں ہے:

"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق كذا في البدائع سواء كانا يتعينان كالمصوغ أو لا يتعينان كالمضروب أو يتعين أحدهما ولا يتعين الآخر كذا في الهداية."

(کتاب الصرف،الباب الأول، ،ج:٣، ص:٢١٧، ط:دار الفكر،بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)".

(باب الصرف، ج: 5، ص: 257 - 259،  ط: سعيد)

تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:

"الدیون تقضیٰ بأمثالها".

(کتاب البیوع، باب القرض، ج: 1، ص: 500 ط: قديمي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و في الأشباه: کل قرض جر نفعاً حرام".

( کتاب البیوع، فصل فی القرض، ج: 5، ص: 166 ط: سعید) 

 "المبسو ط للسرخسي   "میں ہے:

"وإذا عقدالعقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال: إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع، وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية، وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد ... الخ." 

(کتاب البیوع، باب البیوع الفاسدة، ج:۱۳، ص:۸، ط: دارالمعرفة) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں