بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرغ کے فضائل سے متعلق روایات کی تحقیق


سوال

 آپ  حضرات  نے اپنی ویب سائٹ کے فتوی نمبر: ( 144105200177 ) میں لکھا ہے:   ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےسفید مرغ  پالا تھا،یہ حدیث موضوع  ہے‘‘۔ جب کہ  اس سےپہلے فتوی نمبر : ( 144007200255) میں  لکھا ہے: ’’(حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) ایک سفید مرغ تھا‘‘۔

جواب

جزاك الله تعالى خیرًا! تصحیح کی طرف توجہ دلانے  پر سائل کے شکر گزار ہیں!

ہماری ویب سائٹ کےپہلے جاری شدہ فتوے  (فتوی نمبر : 144007200255) میں  علامہ علی بن ابراہیم حلبی رحمہ اللہ  كي  كتاب "السيرة الحلبية (إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون)"  پر اعتماد کرتے ہوئےلکھا گیا  تھا:’’(حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس)  ایک سفید مرغ تھا۔‘‘ چوں کہ مذکورہ سوال سیرت سے متعلق تھا؛  اس لیے اس وقت سیرت کے دستیاب مراجع دیکھ کر جواب لکھ دیا گیا،  جب که بعد میں جاری شدہ دوسرے فتوے (فتوی نمبر: 144105200177 ) میں "السيرة الحلبية"سےیہ بات نقل کرنے کے بعد  اس بارے میں محققین  اہلِ فن  کی تحقیق بھی  نقل کی گئی ہےکہ:’’یہ حدیث موضوع  ہے۔‘‘ 

اس لیے   اس بارے میں ہماری ویب سائٹ کا دوسرا جاری شدہ ہی معتبر ہے(یعنی  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفید مرغ  موجود ہونے سے متعلق حدیث موضوع (من گھڑت )ہے۔ سائل کے توجہ دلانے پر پہلے فتوے میں بھی تصحیح کردی گئی ہے۔

۱۔مرغ کے فضائل سے متعلق روایات کاحکم :

مرغ کے فضائل سے متعلق احادیث کے بارے   میں محدثین کرام رحمہم اللہ کے اقوال درج ذیل ہیں:

حافظ ابنِ القیم الجوزیہ رحمہ اللہ "المنار المنيف في الصحيح والضعيف"میں لکھتے ہیں:

"وبِالجُملة فَكلُّ أحاديثِ الدِيك كذبٌ إلّا حديثاً واحداً: إذا سمِعتُم صِياح الدِيكة، فَاسئلُوا اللهَ مِن فَضلِه؛ فإنّها رأتْ مَلكاً".

(المنار المنيف، فصل:(9)، ص:56، رقم:79، ط: مكتبة المطبوعات الإسلامية-حلب)

ترجمہ:

’’بہرکیف   ایک حدیث :"إذا سمِعتُم صِياح الدِيكة فَاسئلُوا اللهَ مِن فَضلِه؛ فإنّها رأتْ مَلكاً"(یعنی جب تم مرغ کی آواز سنوتو اللہ تعالی سے اس کا فضل مانگو؛اس لیے کہ ( اس موقع پر)وہ مرغ فرشتےکو دیکھتا ہے) کے علاوہ مرغ کے(فضائل کے)بارے میں(مروی ) تمام احادیث  جھوٹی (من گھڑت) ہیں‘‘۔

علامہ محمد بن محمد درویش الحوت الشافعی  رحمہ اللہ نے  "أسنىالمطالب في أحاديث مختلفة المراتب" میں ، اور علامہ قاوقجی رحمہ اللہ   نے  "اللؤلؤ المرصوع"میں حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ  کا مذکورہ کلام نقل کیا ہے، حوالے ملاحظہ فرمائیے: 

(أسنى المطالب، حرف الهمزة، ص:87، رقم:358، ط: دار الكتب العملية-بيروت/اللؤلؤ المرصوع، حرف الميم، ص:160، رقم:475، ط: دار البشائر الإسلامية-بيروت)

پھر حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ احادیث باطلہ کا ذکرکرتے ہوئےلکھتےہیں:

"ومِن الأحاديثِ الباطلةِ: ...  أحاديثُ فضائلِ الِديك كلُّها كذبٌ إلّا حديثاً واحداً: إذا سمِعتُم صِياح الدِيكة، فَاسئلُوا الله مِن فَضلِه".

( المنار المنيف، فصل:(43)، ص:130، رقم:294، ط: مكتبة مطبوعات الإسلامية-حلب)

ترجمہ:

’’اور احادیثِ باطلہ میں سے مرغ کے فضائل کے بارے میں(مروی) احادیث بھی ہیں،ایک حدیث :"إذا سمِعتُم صِياح الدِيكة فَاسئلُوا الله مِن فَضلِه"(یعنی جب تم مرغے کی آواز سنوتو اللہ تعالی سے اس کا فضل مانگو؛اس لیے کہ ( اس موقع پر)وہ مرغا فرشتےکو دیکھتا ہے) کے علاوہ  وہ تمام  احادیث  جھوٹ (من گھڑت) ہیں‘‘۔

۲۔سفید مرغ کے فضائل سے  متعلق روایات کاحکم:

سفید مرغ کے فضائل سے متعلق  روایات  کے بارے میں محدثین ِ کرام رحمہم اللہ کے اقوال درج ذیل ہیں:

علامہ محمد بن محمد درویش الحوت الشافعی  رحمہ اللہ أسنى المطالب في أحاديث مختلفة المراتب"میں لکھتے ہیں:

"ومَا وردَ في الديكِ الأبيضِ واهٍ، لَمْ يَصحَّ مِنه شيءٌ".

(أسنى المطالب، حرف الهمزة، ص:26، رقم:37، ط: دار الكتب العملية-بيروت)

ترجمہ:

’’ سفید مرغ کے بارے میں مروی  احادیث  واہی ہیں،ان میں سےکوئی بھی حدیث صحیح نہیں‘‘۔

نیز لکھتے ہیں:

"حديثُ: الديكُ الأبيضُ حَبيبيْ. وردَ فيه عِدةُ أحاديثَ، وكلُّها لا تصحُّ. قال السّخاويُّ: أحاديثُ الدِيك كلُّها فِيها رَكاكةٌ، وفي جَميعِها النكارةُ، وشِدّةُ الضعف، وتقدّم أنّه لَمْ يَصحَّ مِنها إلّا: إذا سمِعتُم صِياح الدِيكة ".

(أسنى المطالب، حرف الدال، ص:147، رقم:683، ط: دار الكتب العملية-بيروت)

ترجمہ:

’’حدیث:"الدِيكُ الأبيضُ حَبيبيْ"(یعنی سفید مرغ میرا دوست ہے)۔اس بارے میں  چند احادیث مروی ہیں، اور سبھی صحیح نہیں ہیں۔(حافظ) سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:مرغ کے بارے میں(مروی)تمام احادیث میں رکاکت ہے، نیز ان سبھی میں نکارت اور شدتِ ضعف ہے،پہلا گزرچکا کہ اس بارے میں  ایک حدیث: "إذا سمِعتُم صِياح الدِيكة ...إلخ"کے علاوہ کوئی حدیث صحیح نہیں‘‘۔

علامہ عجلونی رحمہ اللہ "كشف الخفاء ومزيل الألباس"میں لکھتےہیں:

"وبابُ فَضائلِ الديكِ الأبيضِ لَمْ يثبُتْ فِيه شَيءٌ، والحديثُ المسلسلُ المشهورُ فِيه: الدِيكُ الأبيضُ صَديقيْ: بَاطلٌ، مَوضوعٌ".

(كشف الخفاء، أحاديث موضوعة، 2/422، ط: مكتبة القدسي-القاهرة)

ترجمہ:

’’سفید مرغ کے فضائل کے بارےمیں  کوئی حدیث ثابت نہیں،اس بارے میں مشہور حدیثِ مسلسل:"الدِيكُ الأبيضُ صَديقيْ"(یعنی سفید مرغ میرا دوست ہے)باطل اور موضوع ہے‘‘۔

علامہ قاوقجی رحمہ اللہ "اللؤ لؤ المرصوع"میں لکھتے ہیں:

"حديثُ: الديكُ الأبيضُ صَديقيْ، وصَديقُ صَديقيْ، وعَدوُّ عدوِّ الله، وكانَ رسولُ الله يُبيِّتُه مَعه في البيت. أوردَه ابنُ الجوزيِّ وغيرُه في الموضوعات، وتَبِعه السُيوطيُّ في مُختصرِه".

( اللؤ لؤ المرصوع،حرف الدال، ص:83، رقم:206، ط: دار البشائر الإسلامية-بيروت)

ترجمہ:

’’حدیث:الديكُ الأبيضُ صَديقيْ، وصَديقُ صَديقيْ، وعَدوُّ عدوِّ الله، وكانَ رسولُ الله يُبيِّتُه مَعه في البيت(یعنی سفید مرغ میرا دوست ہے،اور میرے دوست کا دوست ہے،اور اللہ کے دشمن کا دشمن ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اسے گھر میں پالا کرتے تھے)،(حافظ) ابن الجوزی  رحمہ اللہ وغیرہ  حضرات اسے موضوعات(من گھڑت احادیث)  میں لائے ہیں ،اور (حافظ) سیوطی رحمہ اللہ نے بھی اپنی ‘‘مختصر‘‘ میں انہی کی پیروی کی ہے‘‘۔

۳۔روایت:"لَا تَسبُّوا الدِّيكَ؛ فَإنّه يُوقِظ لِلصّلاة"کاحکم:

 حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کےقول:"وبِالجُملة فَكلُّ أحاديثِ الدِيك كذبٌ إلّا حديثاً واحداً: إذا سمِعتُم صِياح الدِيكة، فَاسئلُوا اللهَ مِن فَضلِه؛ فإنّها رأتْ مَلكاً"(بہرکیف   ایک حدیث :"إذا سمِعتُم صِياح الدِيكة فَاسئلُوا ا اللهَ مِن فَضلِه؛ فإنّها رأتْ مَلكاً" سے معلوم ہوتا ہےکہ حدیث:  "إذا سمِعتُم صِياح الدِيكة فَاسئلُوا اللهَ مِن فَضلِه؛ فإنّها رأتْ مَلكاً" (یعنی جب تم مرغ کی آواز سنوتو اللہ تعالی سے اس کا فضل مانگو؛اس لیے کہ ( اس موقع پر)وہ مرغ فرشتےکو دیکھتا ہے)کے علاوہ مرغ کے فضائل سے متعلق تمام احادیث  موضوع(من گھڑت) اور باطل  ہیں،اور  اس تعمیم  کی بناپر"سنن أبي داود"، "سنن ابن ماجه"،" مسند أحمد"ودیگر کتبِ حدیث میں مذکورحدیث:"لَا تَسبُّوا الدِّيكَ؛ فَإنّه يُوقِظ لِلصّلاة"(مرغ کوبرابھلا مت کہو؛ اس لیے کہ وہ نماز کے لیے جگاتا ہے)بھی موضوع (من گھڑت ) قرار پاتی ہے، جب کہ محدثین کی ایک جماعت کی تصریح کے مطابق یہ حدیث  سند کے اعتبار سےصحیح ،یاحسن ہے۔ذیل میں  اس   حدیث کے بارے  میں محدثین کرام رحمہم اللہ کے اقوال نقل کیےجاتے ہیں:

امام نووی رحمہ اللہ اپنی کتاب"الأذكار"اور"رياض الصالحين"میں مذکورہ حدیث ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

" بِإسنادٍ صحيحٍ".

(یعنی یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے)۔

(الأذكار للنووي، كتاب حفظ اللسان، باب في ألفاظ يكره استعمالها، فصل في النهي عن سب الديك، ص:463، رقم:1100، ط: دار الفكر-بيروت/رياض الصالحين،كتاب الأمور المنهي عنها، باب كراهة سب الديك، ص:481، رقم:1730، ط:مؤسسة الرسالة-بيروت)

حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ"فتح الباري شرح صحيح البخاري"میں مذکورہ حدیث کا حکم بیان کرتے ہوئے  لکھتے ہیں:

"صَحّح ابنُ حِبّان".

(یعنی اس حدیث کو (حافظ)ابنِ حبان  رحمہ اللہ نے صحیح قراردیا ہے)۔

(فتح الباري، كتاب التفسير، باب قول الله تعالى: وبثّ فيها من كلّ دابّة، 6/353، ط:دار المعرفة-بيروت)

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ نے "إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري"میں، علامہ شمس الدین  السفیری الشافعی رحمہ اللہ "المجالس الوعظية في شرح أحاديث خير البرية صلى الله عليه وسلم من صحيح الإمام البخاري(شرح البخاري للسفيري)"میں ،اور علامہ  محمد الخضر الشنقیطی رحمہ اللہ "كوثر المعاني في كشف خبايا صحيح البخاري"میں  لکھتےہیں:

"إسنادُه جيّدٌ".

(اس حدیث کی سند جید(یعنی حسن )ہے)۔

(إرشاد الساري، كتاب التهجد، ببا من نام عند السحر، 2/315، ط: المطبعة الكبرى الأميرية-مصر/المجالس الوعظية، المجلس الخامس عشر، 1/319، ط: دار الكتب العلمية-بيروت/كوثر المعاني، باب من نام عند السحر، الحديث الثاني عشر، 11/30، ط: مؤسسة الرسالة-بيروت)

علامہ عجلونی رحمہ اللہ"كشف الخفاء ومزيل الألباس"میں لکھتےہیں:

"لَا تسبُّوا الدِّيك؛ فإنّه يُوقِظ لِلصّلاة.رواهُ أبو داود وابنُ ماجه بِإسنادٍ جيّدٍ عَن زيد بنِ خالدٍ الجُهني"

(كشف الخفاء، حرف اللام ألف، 2/356، رقم:3027، ط: مكتبة القدسي- القاهرة)

ترجمہ:

’’اس حدیث کو (امام) ابوداود رحمہ اللہ نے (سنن أبي داود)میں اور(امام ) ابنِ ماجہ رحمہ اللہ نے  (سنن ابن ماجه)میں  جید(یعنی حسن )  سند کے ساتھ (حضرت) زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے‘‘۔

ملا علی القاری رحمہ اللہ میں لکھتے ہیں:

"(رَواهُ أبو داود) . وكَذا رواهُ أحمد وابنُ ماجه عَن زيد بنِ خالدٍ الجُهني. وإِسنادُه جيّدٌ، قَالهُ الدميريُّ في حياة الحيوان".

(مرقاة المفاتيح، كتاب الصيد والذبائح، باب ما يحل أكله وما يحرم، 7/2677، رقم:4136، ط: دار الفكر-بيروت)

ترجمہ:

’’اس حدیث کو (امام) ابوداود رحمہ اللہ نے (سنن أبي داود)میں، اسی طرح امام احمدرحمہ اللہ نے(مسند أحمد) میں اور  (امام ) ابنِ ماجہ رحمہ اللہ نے  (سنن ابن ماجه)میں (حضرت) زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے‘‘۔ اس کی سندجید(یعنی حسن ) ہے،(علامہ )دمیری رحمہ اللہ نےیہ حکم"حيات الحيوان"میں بیان کیاہے‘‘۔

علامہ مناوی رحمہ اللہ "التيسير بشرح الجامع الصغير"میں لکھتے ہیں:

"(د عَن زَيد بنِ خالدٍ) الجُهنيِّ، وإِسنادُه صحيحٌ".

(التيسير بشرح الجامع الصغير، حرف لا،  2/493، ط: مكتبة الإمام الشافعي- الرياض)

ترجمہ:

’’(اس حدیث کو امام) ابوداود رحمہ اللہ نے (سنن أبي داود)میں (حضرت )زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ روایت کیا ہے،اور اس کی سند صحیح ہے‘‘۔

علامہ مناوی رحمہ اللہ"فيض القدير شرح الجامع الصغير"میں،  اور  علامہ ابراہیم بن محمد الحسینی الدمشقی رحمہ اللہ "البيان والتعريف في أسباب ورود الحديث الشريف"میں لکھتے ہیں:

"قَال النوويُّ في الأذكار والرِّياض: إسنادُه صحيحٌ. وقَال غيرُه: رِجالُه ثِقاتٌ".

(فيض القدير، حرف لا، 6/399، رقم:9786، ط: المكتبة التجارية الكبرى-مصر/البيان والتعريف، حرف الواو، 2/279، رقم:1723، ط: دار الكتاب العربي-بيروت)

ترجمہ:

’’(امام) نووی رحمہ اللہ "الأذكار"اور "رياض الصالحين"میں  لکھتے ہیں: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔جب کہ دیگر حضرات کہتے ہیں:اس کے رجال(یعنی راوی ) ثقہ ہیں‘‘۔

خلاصہ یہ کہ  مذکورہ حدیث:"لَا تَسبُّوا الدِّيكَ؛ فَإنّه يُوقِظ لِلصّلاة"(مرغ کوبرابھلا مت کہو؛ اس لیے کہ وہ نماز کے لیے جگاتا ہے) کے تمام روای ثقہ ہیں،اور یہ حدیث سند کے اعتبار صحیح ،یاحسن ہے۔

خلاصہ کلام:

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ مرغ کے فضائل سے متعلق  حدیث:  "إذا سمِعتُم صِياح الدِيكة فَاسئلُوا اللهَ مِن فَضلِه؛ فإنّها رأتْ مَلكاً"(یعنی جب تم مرغ کی آواز سنوتو اللہ تعالی سے اس کا فضل مانگو؛اس لیے کہ ( اس موقع پر)وہ مرغ فرشتےکو دیکھتا ہے) اور حدیث:"لَا تَسبُّوا الدِّيكَ؛ فَإنّه يُوقِظ لِلصّلاة"(مرغ کوبرابھلا مت کہو؛ اس لیے کہ وہ نماز کے لیے جگاتا ہے)تو سند کے اعتبار سے صحیح ہیں اور قابلِ بیان ہیں۔البتہ سفید مرغ کے بارے میں مشہور حدیث:"الديكُ الأبيضُ صَديقيْ، وصَديقُ صَديقيْ، وعَدوُّ عدوِّ الله، وكانَ رسولُ الله يُبيِّتُه مَعه في البيت"(یعنی سفید مرغ میرا دوست ہے،اور میرے دوست کا دوست ہے،اور اللہ کے دشمن کا دشمن ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اسے گھر میں پالا کرتے تھے)  حافظ ابن الجوزی   اورحافظ سیوطی رحمہم اللہ  وغیرہ  حضرات  کی تصریح کے مطابق موضوع (من گھڑت) ہے، لہذا   اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنے سےاحتراز کیاجائے۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100767

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں