بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وفات کے بعد ملنے والے فنڈز کا حکم


سوال

میرے چچا زاد بھائی کا انتقال 27 اگست 2022 کو ہوا تھا ،ان  کی نہ کوئی اولاد ہے ،اور نہ ماں باپ ہیں ، ان کے بینک میں کچھ فنڈز ہیں ،اور وہ بینک کے ملازم بھی تھے،بینک ان کے تمام اخراجات  ان کے سگے رشتہ دار جیسے چچا زاد یا تایا زاد کے حوالہ کرنا چاہتا ہے،تو آیا یہ درست ہوگا کہ ہم بینک کی تمام قانونی کاروائی پوری کرنے کے بعد وہ رقم حاصل کرلیں ؟ اور پھر اپنے حقیقی بھائی یعنی مرحوم کے سگے چچازاد بھائیوں میں برابر تقسیم کرلیں ؟

وضاحت:

1.مرحوم چچازاد بھائی نہ شادی شدہ تھے ،اور نہ ان کی کوئی آل اولاد ہے ۔

2.مرحوم کے کوئی سگے حقیقی بہن بھائی نہیں ہیں ۔

3.مرحوم کے ایک سگے چچا حیات ہیں ،جو کہ امریکہ میں مقیم ہیں ۔

4.مرحوم کے کل  چودہ (14) تایا زاد اور چچازاد بھائی ،اور ایک چچا زاد بہن ہیں ۔

5.فنڈ ز سے مرادمرحوم کے دو اکاؤنٹ ہیں ،ایک میں سیونگ اماؤنٹ ہے ،اور مرحوم خود بینک میں ملازم تھے ،اس میں ان کی 35 سالہ ملازمت کے فنڈز ہیں ،جی پی فنڈ وغیرہ۔

جواب

واضح رہے کہبینک میں کسی قسم کی  ملازمت کرنا  سودی لین دین میں معاونت کرنے کی وجہ سے نا  جانائز اور حرام ہے،اور اس کام کی وجہ سے ملنے والی تنخواہ بھی ناجائز اور حرام ہے،نیز یہ بھی واضح رہے کہ حرام  مال میراث میں تقسیم نہیں ہوتا ہے ،بلکہ  ایسامال اصل مالک کی طرح ورثاء کے لیے بھی حرام ہوتا ہے اور واجب التصدق ہوتا ہے ،یعنی ورثاء پر لازم ہوتا ہے کہ بینک سے حاصل ہونے والے اس مال کو   کسی مستحق زکوۃ کو بغیر ثواب کی نیت کے  صدقہ کردیں ،لہذا صورت مسئولہ میں سائل کے  مرحوم چچا زاد بھائی کو بینک سے  ملنے والے تمام فنڈز حرام ہیں  ،نیز سیونگ اکاؤنٹ میں موجود رقم بھی استعمال کرنا ناجائز ہے ،اور  چونکہ مرحوم کے وارث مذکورہ صورت میں مرحوم کے چچا ہیں ،اور چچا کے ہوتے ہوئے چچا کی اولاد وارث نہیں ہوتی،اس لیے مرحوم کے چچا کی ذمہ داری ہے کہ مذکورہ حرام رقوم  اولاً تو وصول ہی نہ کریں،اور اگر وصول کرلےتو ثواب کی نیت کے بغیر فقراء میں تقسیم کردیں ،خود استعمال نہ کریں۔

البتہ اس کے علاوہ  اگر مرحوم چچا زاد  بھائی کے پاس  دیگر ترکہ جو جائز آمدنی سے حاصل شدہ ہو اس کا حکم   یہ ہے کہ مرحوم  کے  حقوق متقدمہ  یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنےکےبعد ،اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو اسےکل مال سےادا کرنے کےبعد ،اگر مرحوم  نے کوئی جا ئز وصیت کی ہو تو اسے باقی مال کے ایک تہائی سے پوراکرنے کے بعد باقی کل منقولہ وغیر منقولہ ترکہ مرحوم کے ایک چچا کو ملے گا،الغرض سائل اور سائل کے بھائی مرحوم کے شرعی وارث نہیں ،بلکہ مرحوم کے چچا جو ملک سے باہر ہیں،وہی وارث ہیں ،لہذا سائل کو مذکورہ ترکہ کی رقم وصول کرنے کا حق حاصل نہیں ۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو ‌حق ‌للمورث على ما قال عليه الصلاة والسلام من ترك مالا أو حقا فهو لورثته."

(کتاب الحدود،فصل في شرائط جواز إقامة الحدود، ج:7، ص:57، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي حظر الأشباه: الحرمة تتعدد مع العلم بها إلا في حق الوارث، وقيده في الظهيرية بأن لا يعلم أرباب الأموال، وسنحققه ثمة ۔

(قوله وسنحققه ثمة) أي في كتاب الحظر والإباحة. قال هناك بعد ذكره ما هنا لكن في المجتبى: مات وكسبه حرام فالميراث حلال، ثم رمز وقال: لا نأخذ بهذه الرواية، وهو حرام مطلقا على الورثة فتنبه. اهـ. ح، ومفاده الحرمة وإن لم يعلم أربابه وينبغي تقييده بما إذا كان عين الحرام ليوافق ما نقلناه، إذ لو اختلط بحيث لا يتميز يملكه ملكا خبيثا، لكن لا يحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله كما حققناه قبيل باب زكاة المال فتأمل."

(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد،ج:5،ص:99،ط:سعید)

سراجی میں ہے:

"یرجحون بقرب الدرجۃ،اعنی اولاھم بالمیراث جزء المیت،ای البنون،ثم بنوھم وان سفلوا۔۔۔۔۔۔ثم جزء جدہ، ای الأعمام،ثم بنوھم وان سفلوا." 

(باب العصبات،ص:54،ط:البشریٰ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102863

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں