بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد عدت کاحکم


سوال

دوسال سے والدین کے گھر میں تھی، شوہر سے کوئی تعلق نہ رہا نہ کوئی بات چیت ہوئی ہے، اب شوہر کی طرف سے طلاق آئی ہے، کیا عدت کرنی ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کو واقعتاًاس کے  شوہرنے طلاق نامہ بھیجاہے،جس دن طلاق نامہ لکھا گیا تھا  اسی دن سے سائلہ پر طلاق واقع ہوگئی تھی،اور اسی دن سےسائلہ کے ذمے عدت گزارنالازم ہوچکی ہے،اگر سائلہ کو ماہواری آتی ہےتوتین ماہواریاں،اگر ماہواری نہیں آتی ہےتوتین مہینے عدت گزار نا ضروری ہے۔شوہر سے الگ رہنے کی وجہ سے عدت کے حکم میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ."(سورة البقرة، الأية: 228)

"ترجمہ:اور طلاق دی ہوئی عورتیں اپنے آپ کو روکے رکھیں تین حیض تک اوران عورتوں کویہ بات حلال نہیں کہ خداتعالیٰ نےجوکچھ اُن کے رحم میں پیدا کیاہو،اُس کو پوشیدہ کریں،اگروہ عورتیں اللہ تعالیٰ پراوریوم قیامت پریقین رکھتی ہیں،اوران عورتوں کے شوہر اُن کےپھرلوٹالینے کاحق رکھتے ہیں،اس عدت کےاندر بشرطیکہ اصلاح کاقصد رکھتےہوں،اور عورتوں کے بھی حقوق ہیں جوکہ مثل اُن ہی حقوق کے ہیں جواُن عورتوں پر ہیں قاعدہ کے موافق،اورمردوں کااُن کے مقابلہ میں کچھ درجہ بڑھاہواہے،اوراللہ تعالیٰ زبردست ہیں حکیم ہیں۔(بیان القرآن)"

فتح القدیر میں ہے:

"(وإذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء) لقوله تعالى {والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء} [البقرة: 228]."

(‌‌كتاب الطلاق، ‌‌باب العدة، ج:4، ص:307، ط: دار الفكر، لبنان)

الاصل للامام محمد میں ہے:

"وإذا طلقت المرأة ثلاثا أو تطليقة يملك فيها الرجعة زوجها فإن عليها العدة كما قال الله تعالى في كتابه: {ثلاثة قروء}، إن كانت تحيض. وإن كانت لا تحيض من صغر أو كبر فعدتها ثلاثة أشهر. فإن كانت حاملا فعدتها أن تضع حملها."

(‌‌كتاب الطلاق، ‌‌باب العدة وخروج المرأة من بيتها، ج:4، ص:403، ط: دار ابن حزم، بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں