بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائیوں کا آپس میں اپنے والد کی میراث کو تقسیم کرنا، ترکہ کی تقسیم کا طریقہ کار


سوال

میرے دادا کی وفات ہوگئی ہے، میرے ابو چار بھائی ہیں، تقسیم کے بعد ابو کے حصہ میں پانچ بیگھہ زمین آئی ہے، ہماری دو پھوپھی زندہ ہیں اور تیسری پھوپھی وفات پاگئی ہیں، ان کا بیٹا زندہ ہے، اب سوال یہ ہے کہ: 

۱۔ کیا جو پھوپھی وفات پاگئی ہیں ان کے بیٹے کو بھی حصہ دینا ضروری ہے؟ اگر ضروری ہے تو میرے ابو کی 5 بیگھہ زمین میں سے تینوں پھوپھیوں کا حصہ کتنا ہوگا؟

۲۔ اگر ضروری نہیں ہے تو دونوں پھوپھیوں کا حصہ کتنا ہوگا؟

تنقیح:

’’۱۔ آپ کے دادا کی وفات کے وقت ان کے ورثاء میں سے کون کون حیات تھا؟ کیا ان کی بیوہ حیات تھیں؟ 

۲۔ سوال میں مذکورہ پھوپھی کا انتقال کب ہوا؟ دادا کی وفات سے پہلے یا بعد میں؟

۳۔ فوت شدہ پھوپھی کے شرعی ورثاء میں سے ان کے انتقال کے وقت کون کون حیات تھے؟ کیا ان کے خاوند حیات تھے؟ اور کیا اولاد میں سے بیٹے کے علاوہ بیٹیاں بھی ہیں یا نہیں؟

۴۔ آپ نے سوال میں تقسیم کا ذکر کیا ہے، وہ تقسیم کس نوعیت کی تھی؟ کیا اس تقسیم میں آپ کی پھوپھیوں کو حصہ نہیں دیا گیا تھا؟‘‘

جوابِ تنقیح:

’’۱۔ دادا کی وفات کے وقت ان کے چاروں بیٹے زندہ تھے، اور دو بیٹیاں حیات تھیں، دادا کی بیوہ انتقال کے وقت حیات تھیں اور ابھی بھی حیات ہیں۔

۲۔ مذکورہ پھوپھی کا انتقال دادا کی وفات سے پہلے ہوگیا تھا۔

۳۔ مذکورہ پھوپھی کے شوہر بھی حیات نہیں تھے اور ان کا صرف ایک بیٹا ہے، بیٹیاں نہیں ہے۔

۴۔ وہ تقسیم صرف ہمارے ابو اور ان کے بھائیوں کے درمیان تھی، ہماری پھوپھیوں کو حصہ نہیں دیا گیا تھا۔‘‘

جواب

واضح رہے کہ شریعت نے جس طرح بیٹوں کا حصہ مقرر کیا ہے، اسی طرح بیٹیوں کا حصہ بھی مقرر کیا ہے اور ان کو اپنے شرعی حصہ سے محروم کرنا قرآن کریم کے صریح حکم کی مخالفت اور سخت گناہ ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِىٓ أَوْلَـٰدِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِ ." (سورة النساء: 11)

ترجمہ: "اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے باب میں لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر۔"

(بیان القرآن، ج: 1، ص: 330، ط: مکتبہ رحمانیہ)

مشکاۃ شریف میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌من ‌قطع ‌ميراث ‌وارثه ‌قطع ‌الله ‌ميراثه ‌من ‌الجنة ‌يوم ‌القيامة»."

(كتاب الفرائض والوصايا، الفصل الثالث، ج: 2، ص: 926، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کی وضاحت کے مطابق اس کے والد اور ان کے بھائیوں کا آپس میں اپنے مرحوم والد کی جائیداد کو تقسیم کرنا اور اپنی بہنوں اور مرحوم کی بیوہ کو حصہ نہ دینا شرعاً ناجائز تھا، اور اب ان پر لازم ہے کہ شریعت کی روشنی میں از سرِ نو مرحوم کی میراث کو تقسیم کریں۔

سائل کے دادا کی میراث تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے میت کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا  خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ  کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذکرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 80 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوہ کو 10 حصے، ہر ایک بیٹے کو 14 حصے اور ہر ایک بیٹی کو 7 حصے دیے جائیں، سائل کی جس پھوپھی کا انتقال اس کے دادا کی زندگی میں ہوگیا تھا، اس کے بیٹے کو سائل کے دادا کی میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا، صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت: سائل کے دادا، مسئلہ: 8 / 80

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
17
101414141477

فیصد کے اعتبار سے مرحوم کی بیوہ کو 12.5 فیصد ، ہر ایک بیٹے کو 17.5 فیصد اور ہر ایک بیٹی کو 8.75 فیصد حصہ ملے گا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100962

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں