بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

صرف لفظ طلاق کہنے سے طلاق واقع ہوجائے گی؟


سوال

میری زبان سے لفظ طلاق نکلا تو میں پریشان ہوگیا،لیکن میں نے اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لے کہا ، کہ لفظ طلاق بولنے سے کچھ نہیں ہوتا ، بلکہ میری بیوی کو 3 طلاقیں یا میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں،  یہ بولنے سے ہوتی ہے ،  اب میں پریشان ہوں،  برائے مہربانی راہ نمائی فرمادیں،  مجھے عجیب سی سوچیں آرہی ہیں۔

جواب

اگر آپ کی زبان سے محض طلاق کا لفظ نکلا اور آپ نے اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے کہا،  کہ لفظ طلاق بولنے سے کچھ نہیں ہوتا،  بلکہ میری بیوی کو 3 طلاقیں یا میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں،  یہ بولنے سے ہوتی ہے،  تو اس سے طلاق نہیں ہوئی۔

فتاوی شامی میں ہے:

" أن ‌الطلاق محله المرأة لأنها ‌محل النكاح ... فلا يقع ‌الطلاق إلا بالإضافة إلى ذاتها أو إلى جزء شائع منها."

(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، ج:3، ص:258،دار الفكر بيروت)

وفیہ ایضاً:

"لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة ‌لفظ ‌الطلاق إليها."

(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، ج:٣، ص:٢٥٠، ط:دارالفكر بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال لها: إن خرجت يقع الطلاق فخرجت لم يقع الطلاق ‌لتركه ‌الإضافة لها."

(كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط ونحوه، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ج:١، ص:٤٣٩، ط:دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100921

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں