میرے والد میرے بچپن ہی میں انتقال کر گئے تھے، ہم 4 بہنیں اور ایک بھائی تھے، مکان کی رجسٹری کے لیے بھائی نے تمام بہنوں کے دستخط کروائے، اس شرط اور وعدے کی بنیاد پر کہ، کوئی بہن اپنے حصے سے دست بردار نہیں ہوگی، بھائی نے وعدہ کیا کہ، مکان کے بکنے پر وہ ہر بہن کو اس کا حصہ دے دے گا، میری دو بہنوں کی وفات ہو چکی ہے اور اپنی زندگی میں دونوں اپنے حصّے کا مطالبہ کرتی رہیں، میرا بھائی بھی دو ماہ قبل اللہ کو پیارا ہو گیا ، ہمیں اب پتہ چلا کہ مکان بک چکا ہے، پر رقم ابھی وصول نہیں ہوئی، مکان کب اور کس مالیت میں بیچا گیا؟ یہ باتیں بھی ہم سے راز میں رکھی گئیں، میرے مرحوم بھائی کے 3 بچے ہیں، ان کے ماموں کا کہنا ہے کہ، اب تمام بہنیں حصے سے دست بردار ہیں، چوں کہ گھر بھائی کے نام تھا اور اس کے مطابق اگر حصے کے حقیقی حق دار کوئی ہیں تو وہ صرف اس کے بھانجے، بھانجی اور بہن، یعنی میرے مرحوم بھائی کی بیوی ہیں ، آپ سے گزارش ہے کہ ،قرآن و حدیث کی روشنی میں اس معاملے کا حل بتا ئیں۔
تنقیح:
مذکورہ مسئلہ میں درجہ ذیل وضاحت درکار ہے:
1۔سائلہ کے مرحوم والدکےوالدین (سائلہ کے دادا، دادی)میں سے کوئی مرحوم کی زندگی میں حیات تھا یا نہیں ؟ اگر حیات نہیں تھا تو پہلے کس کا انتقال ہوا؟
2۔مرحوم کے بہن ، بھائیوں کی تفصیل بھی بتلائے۔
3۔سائلہ کی والدہ یعنی مرحوم کی بیوہ کااگر انتقال ہوا ہے،تو کب ہوا ہے مرحوم سے پہلے یا بعد میں؟
4۔سائلہ کے مرحوم بھائی کے جو تین بچے ہیں،وضاحت کریں کہ بیٹے کتنے ہیں اور بیٹیاں کتنی ہیں ؟
5۔ بہنوں کا حصہ سے دستبردار ہونے سے کیا مراد ہے؟
6۔مذکورہ مکان سائلہ کے مرحوم والد کا ترکہ ہے یا مرحوم بھائی کا؟
درج بالا امور کی وٖضاحت فرمادیں، ان شاء اللہ آپ کو جواب ارسال کردیا جائے گا اور مناسب یہ ہے کہ، اپنا کوئی رابطہ نمبر بھی درج کردیں ، تاکہ بوقت ضرورت رابطہ کیا جاسکے۔
جواب تنقیح:
1۔سائلہ کے مرحوم والد کے والدین(یعنی سائلہ کے دادا، دادی )کی زندگی میں وفات پاگئے تھے، پہلے مرحوم کے والد اور پھر مرحوم کی والدہ کا انتقال ہوا تھا۔
2۔سائلہ کے مرحوم والد کے 5 بھائی اور 2 بہنیں تھیں، سائلہ کے مرحوم بھائی کاایک اور مرحوم بھائی تھے، جن کی شادی نہیں ہوئی تھی اور4 بہنیں(سائلہ سمیت)ہیں۔
3۔سائلہ کی والدہ(یعنی مرحوم والد کی بیوہ)کا انتقال مرحوم والد کے کافی عرصہ بعد ہوا۔
4۔سائلہ کے مرحوم بھائی کے 2بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
5۔سائلہ کے مرحوم بھائی نے والد کے مکان کو ٹیکس کی مشکلات سے بچنے کے لیے والدہ(مرحؤم والد کی بیوہ)کے نام رجسٹری بنوانے پر سب بہنوں کو آمادہ کیا اور یہ بھی کہا کہ، جب بھی گھر بکے گا، تو سب بہنوں کوان کا حصہ ملے گا، لیکن جب اس مکان کا سودا سائلہ کے مرحوم بھائی نے وفات سے کچھ مہینے پہلے کیا تو اس امر کو سب سے مخفی رکھا۔
6۔مذکورہ مکان سائلہ کے مرحوم والد کاترکہ ہے۔
(ورثاء کی ترتیب یوں ہے:سائلہ کےوالد مرحوم کے انتقال کے وقت ورثاءمیں بیوہ،2بیٹے، 4بیٹیاں تھیں، پھرایک بیٹا،جو غیر شادی شدہ تھا،اس کا انتقال ہوا، ورثاء میں والدہ، ایک بھائی، 4بہنیں تھیں پھرسائلہ کی والدہ مرحومہ کا انتقال ہوا،ورثاءمیں ایک بیٹا، 4بیٹیاں تھیں پھرمرحوم والد کی ایک بیٹی کا انتقال ہوا،ورثاءمیں2 بیٹے، ایک بیٹی ہے،شوہر کا اس سے پہلے انتقال ہواتھاپھردوسری بیٹی کا انتقال ہوا، ورثاءمیں شوہر، ایک بیٹا، 2بیٹیاں ہیں پھر مرحوم والد کے دوسرے بیٹے کا انتقال ہوا،اس کے ورثاء میں بیوہ، 2بیٹے، ایک بیٹی ہے، مذکورہ تفصیل فون نمبر پر رابطہ کرنے کے بعدمعلوم کیاگیاہے)
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مکان چوں کہ سائلہ کے مرحوم والد کا ترکہ ہے، لہذا وہ اس کے شرعی ورثاٰء یعنی اس کی اولاد، بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان ان کے شرعی حصےکے تناسب سے تقسیم ہوگا، مرحوم بھائی کے بچوں کےماموں کا یہ کہناکہ، مرحوم کی تمام بہنیں اپنے حصے سے دستبردار ہیں اور گھر بھائی کے نام تھا لہذامذکورہ گھر کے ورثاء صرف مرحوم بھائی کی اولاد اور مرحوم کی بیوہ ہیں، تو اس کایہ کہنا قطعاًدرست نہیں ہےمکان کی رجسٹری مذکورہ بھائی کے نام ہونے سے یہ بھائی اکیلااس مکان کا مالک نہیں بناتھااور اس بھائی کے انتقال کے بعد اس کاشرعی حصہ اس کے شرعی ورثاء میں شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔
صورت مسئولہ میں مرحوم والد کےترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے حقوق متقدمہ، یعنی تجہیزوتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر میت پر کوئی قرضہ ہے اس کو ادا کرنے کے بعد اور اگر میت نے کوئی جائز وصیت کی ہے ،تو اس کوباقی مال کے ایک تہائی سے ادا کرنے کے بعد باقی ترکہ، منقولہ و غیر منقولہ کو5760حصوں میں تقسیم کرکے 960حصے مرحوم والد کی ہر ایک زندہ بیٹی کو،384حصے پہلی مرحومہ بیٹی کے ہرایک بیٹے کواور192حصےاس کی بیٹی کو، 240حصےدوسری بیٹی کے شوہرکو، 360حصے اس کے بیٹے کو،180حصے اس کے ہر ایک بیٹی کواور240حصے مرحوم والد کے مرحوم بیٹے کی بیوہ کو،672حصے اس کے ہر ایک بیٹے کو،336حصے اس کی ایک بیٹی کو ملیں گے۔
تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے:
مرحوم(والد):5760/1152/64/8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | |||||
8 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 | 7 |
144 | فوت شد | 252 | 126 | 126 | 126 | 126 |
1260 | 630 | 630 | 630 |
بیٹا(سائلہ کابھائی):18/36/6۔۔۔مف:7/14
والدہ | بھائی | بہن | بہن | بہن | بہن |
1 | 5 | ||||
6 | 10 | 5 | 5 | 5 | 5 |
42 | 70 | 35 | 35 | 35 | 35 |
فوت شدہ | 350 |
فوت شدہ | 175 | 175 | 175 |
بیوہ(سائلہ کی والدہ):1/6۔۔۔مف:31/186
بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
2 | 1 | 1 | 1 | 1 |
62 | 31 | 31 | 31 | 31 |
310 فوت شد | 155 فوت شدہ | 155 | 155 |
بیٹی(سائلہ کی بہن):5۔۔۔مف:192
بیٹا | بیٹا | بیٹی |
2 | 2 | 1 |
384 | 384 | 192 |
بیٹی(سائلہ کی دوسری بہن):1/16/4۔۔۔مف:60/960
شوہر | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
1 | 3 | ||
4 | 6 | 3 | 3 |
240 | 360 | 180 | 180 |
بیٹا(سائلہ کا دوسرابھائی):1/40/8۔۔۔مف:48/1920
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹی |
1 | 7 | ||
5 | 14 | 14 | 7 |
240 | 672 | 672 | 336 |
یعنی مرحوم والد کےترکہ کی کل مالیت لگاکر100فیصدمیں سے16.66فیصد رقم مرحوم والد کی ہر ایک زندہ بیٹی کو، 6.66حصے ایک بیٹی کے ہرایک بیٹے کواور3.33فیصدرقم اس کی بیٹی کو،4.16فیصد رقم دوسری بیٹی کے شوہرکو، 6.24فیصدرقم اس کے بیٹے کو،3.12فیصدرقم اس کی ہر ایک بیٹی کواور4.16فیصد رقم مرحوم والد کے مرحوم بیٹے کی بیوہ کو، 11.66فیصدرقم اس کے ہر ایک بیٹے کو، 5.83فیصد رقم اس کی ایک بیٹی کو ملے گی۔
العقودالدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:
"الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط."
(كتاب الإقرار، ج:٢، ص:٥١، ط:دار المعرفة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144409101557
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن