بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ اور دیگر موبائل کمپنیوں کے کاروبار کا شرعی حکم


سوال

 میں ایچ بی ایل یا جاز کیش یا ایزی پیسہ یا زندگی میں ایجنٹس  کام کرتا ہوں،  میری ایک شاپ ہے جس میں لوگ آن لائن ٹرانزیکشن کرتے ہیں،  مثلاً ایک لاکھ  روپےکراچی سے لاہور سینڈ کرواتے ہیں، جس پر متعلقہ بینک ایجنٹ کو ایک لاکھ پر دو ہزار کمیشن دیتا ہے، اس میں ایجنٹس کو فائدہ ہوتا ہے اور کسٹمر کو بھی،  کیا  ایجنٹ کا لوگوں کی رقوم منتقل کرنے پریہ کمیشن لینا درست ہے؟ کہیں یہ سود کے زمرے میں تو نہیں آتا ہے؟

جواب

  صورت مسئولہ میں ایزی پیسہ، اور جیز کیش وغیرہ کے ذریعے لوگوں کی رقوم کی منتقلی،  کرنے والے شخص  کی حیثیت لوگوں کے لیےاجیر مشترک کی ہوتی ہے،اور ايسا شخص کسی بھی مخصوص کمپنی  کے لیے معاہدے کے مطابق خدمات فراہم کرتا ہے(یعنی کمپنی کے لیے اجیرِ خاص کی حیثیت رکھتا ہے) ،اور  کام مکمل کرنے کے بعد اجرت کا حقدار ہوتاہےاورپھرکمپنی اس کو  مخصوص مقدار میں اجرت دیتی ہے، یوں کمپنی اور اجیر کے درمیان یہ معاملہ بطورِاجارہ طے ہو جاتا ہے، شرعااس طرح کا کاروبارجائزہے،لیکن شرط یہ ہے کہ کمپنی ایجنٹ کورقم بھیجنے کے عمل کی اجرت  بھیجی جانے والی رقم سے نہ دے ، بلکہ اجرت  الگ  سے طے کرکے دی جائے ، اور   گاہک کی مکمل رقم پہنچادی جائے ،تو اس طرح ایزی پیسہ وغیرہ کا کاروبار جائز ہے اور ایجنٹ کاکمپنی کی طرف سے متعین کردہ کمیشن لینا  بھی جائز ہے۔

نیز یہ بات بھی واضح رہے کہ  کمپنی کی جانب سے رقوم کی منتقلی پر  چوں کہ دکان دار اور ایجنٹ کو مقررہ شرح کے مطابق  کمیشن    دیا جا  تاہے،چاہے وہ کمیشن کم ہو یا زیادہ،تو ایسی صورت میں کمپنی کے نمائندے یعنی ایجنٹ کا گاہک سے اضافی چارجز مثلاً ایک ہزار روپے پر بیس روپے الگ سے وصول کرنا جائز نہیں  ہے،کیونکہ دکاندار کمپنی کا اجیر خاص ہے، اور کمپنی دکاندار کو ان رقوم کی منتقلی پر اجرت بصورت کمیشن دیتی ہے، لہذا ایک  عمل  پر دوہری اجرت یعنی کمپنی کے علاوہ  کسٹمر سے بھی  (اضافی)اجرت لینا درست نہیں۔

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

 "ويتم التعبير عن هذا القرض بتسليم المقرض وَصْلاً (وثيقة) يثبت حقه في بدل القرض، ويكون المقترض وهو الصراف أو البنك ضامناً لبدل القرض، ولكنه يأخذ أجراً أو عمولة على تسليم المبلغ في بلد آخر مقابل مصاريف الشيك أوأجرة البريد أو البرقية أو التلكس فقط، لتكليف وكيل الصراف بالوفاء أو السداد... وأما الحوالة البريدية في داخل الدولة بدون صرافة فجائزة بلا خلاف."

(‌‌القسم الثالثُ: العقود أو التصرفات المدنية المالية‌، الفصل الأول: عقد البيع،‌ المبحث السادس: أنواع البيوع، الصرف والتحويل القائم على القرض،3673/5،ط: دارالفکر)

ہدایہ میں ہے:

"قال: "والأجير الخاص الذي يستحق الأجرة بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم" وإنما سمي أجير وحد؛ لأنه لا يمكنه أن يعمل لغيره؛ لأن منافعه في المدة صارت مستحقة له والأجر مقابل بالمنافع، ولهذا يبقى الأجر مستحقا، وإن نقض العمل."

(كتاب الإجارات،‌‌باب ضمان الأجير،312/3،ط:رحمانیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(فالأول من يعمل لا لواحد) كالخياط ونحوه (أو يعمل له عملا غير مؤقت) كأن استأجره للخياطة في بيته غير مقيدة بمدة كان أجيرا مشتركا وإن لم يعمل لغيره (أو موقتا بلا تخصيص)۔۔۔ (ولا يستحق المشترك الأجر حتى يعمل)."

(کتاب الأجارۃ، باب ضمان الأجیر،64/6،ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ونوع ‌يرد ‌على ‌العمل كاستئجار المحترفين للأعمال كالقصارة والخياطة والكتابة وما أشبه ذلك، كذا في المحيط."

(كتاب الإجارة،‌‌الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها،409/4،ط:رشیدیة)

وفیہ ایضاً:

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد ‌بغير ‌سبب شرعي."

(كتاب الحدود،الباب السابع في حد القذف والتعزير،‌‌فصل في التعزير، 167/2،ط:رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"إذا استأجر رجلا ليطحن له قفيزا من حنطة بربع من دقيقها أو ليعصر له قفيزا من سمسم بجزء معلوم من دهنه أنه لا يجوز؛ لأن الأجير ينتفع بعمله من الطحن والعصر فيكون عاملا لنفسه وقد روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قفيز ‌الطحان» ولو دفع إلى حائك غزلا لينسجه بالنصف فالإجارة فاسدة؛ لأن الحائك ينتفع بعمله وهو الحياكة وكذا هو في معنى قفيز ‌الطحان فكان الاستئجار عليه منهيا وإذا حاكه فللحائك أجر مثل عمله لاستيفائه المنفعة بأجرة فاسدة."

(‌‌كتاب الإجارة،فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة، 192/4،ط: دار الکتب العلمية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408102297

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں