میں نے ایک فلیٹ بکنگ کے طور پر خریدا جو کہ پلاٹ کی شکل میں تھا، اس میں تین سال کی مدت میں فلیٹ بنانے کا ٹائم دیا تھا، مگر کسی وجہ سے وہ نہیں بنا پا رہا ،لہذا بلڈر ہمارے پیسے واپس کر رہا ہے ،سوال یہ ہے کہ بلڈر کہہ رہا ہے کہ یہ پلاٹ میں فروخت کر کے اس کا نفع سب شرکاء میں تقسیم کروں گا ،آیا ہمارے لیے یہ نفع وصول کرنا جائز ہے کہ نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ سائل بھی مذکورہ پلاٹ میں گھر کی تعمیرکے لیے رقم دینے سے قانون کے مطابق زمین کے کچھ نہ کچھ حصے کا مالک ہے ، اس لیے اگر بلڈرپلاٹ كو بيچ كر سائل کو اس کے تعمير كے ليے اداکردہ سرمایہ لوٹانے پر نفع اپنی رضاورغبت سے دے رہا ہے تو سائل کے لیے مذکورہ نفع لینا جائز ہے ۔
البحر الرائق میں ہے :
"(صح بيع العقار قبل قبضه) أي عند أبي حنيفة وأبي يوسف، وقال محمد لا يجوز لإطلاق الحديث، وهو النهي عن بيع ما لم يقبض، وقياسا على المنقول وعلى الإجارة، ولهما أن ركن البيع صدر من أهله في محله ولا غرر فيه لأن الهلاك في العقار نادر بخلاف المنقول، والغرر المنهي غرر انفساخ العقد، والحديث معلول به عملا بدلائل الجواز."
(كتاب البيوع،فصل في بيان التصرف في المبيع والثمن،ج :6 ،ص :126،ط :دارالكتاب السلامي)
شرح المجله لسليم رستم باز ميں هے :
"يلزم رضا الواهب في نفاذ الهبة والهدية والصدقة والإبراء."
(المادۃ :876 ،ج:1 ، ص:374 ، ط: رشيدية)
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما حكم الإستصناع فهو ثبوت الملك للمستصنع."
(كتاب البيوع ،باب الإستصناع ،ج :5،ص :3،ط :دارالكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے :
"والحاصل أن جواز البيع يدور مع حل الأنتفاع مجتبى،واعتمده المصنف وسيجيء في المتفرقات."
(كتاب البيوع، مطلب في بيع دود القز،ج :5،ص :69 ،ط :سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144408101859
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن