میں آن لائن ٹرانزیکشن کا ایچ۔ بی۔ ایل۔ ایجنٹ اکاؤنٹ میں کام کرتا ہوں، اس پر بینک مجھے صرف کمیشن دیتا ہے، کوئی تنخواہ نہیں، تو کیا میرے لیے جائز ہے؟
تنقیح:
’’برائے مہربانی اس بات کی وضاحت کردیں کہ ایجنٹ اکاؤنٹ کا مقصد کیا ہوتا ہے اور اس میں کمیشن کے حصول کی کیا صورت ہوتی ہےاور کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں ؟ وضاحت کردینے کے بعد ان شاء اللہ جواب دے دیا جائے گا۔‘‘
جوابِ تنقیح:
’’مثال کے طور پر ایزی پیسہ، جاز کیش، اومنی زندگی اور ایچ بی ایل ایجنٹس اکاؤنٹ وغیرہ، میں نے مظفرآباد سے کراچی ایک لاکھ آن لائن موبائل اکاؤنٹ سے پیمنٹ کی، تو اس کی وجہ سے مجھے دو ہزار روپے بینک کی طرف سے کمیشن ملا، اب کسٹمر بینک کے بجائے کسی بھی ایجنٹ شاپ سے رقم وصول کرسکتا ہے، میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یہ کمیشن لینا جائز ہے؟ کیوں کہ اس سے رقم آسانی سے موصول ہوجاتی ہے اور کسٹمر کو بینک بھی نہیں جانا پڑتا۔‘‘
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل ایچ۔ بی۔ ایل۔ ایجنٹ کے ذریعے لوگوں کی رقم کی منتقلی کرتا ہے، اور کمپنی اسے اس کی خدمات کے عوض کچھ کمیشن دیتی ہے تو سائل کے لیے اس کا لینا جائز ہوگا، البتہ چوں کہ سائل کو کمپنی کی طرف سے کمیشن مل رہا ہے، لہذا اس کے لیے کسٹمر سے بھی مزید کمیشن لیناجائز نہ ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل... وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."
(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في أجرة الدلال، ج: 6، ص: 63، ط: دار الفكر بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144408101781
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن