بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد تجدیدِ نکاح کرکے ساتھ رہنے کا حکم


سوال

میں شادی شدہ زندگی سے متعلق اپنے ایک انتہائی پریشان کُن مسئلے کا حل تلاش کر رہی ہوں، ہماری شادی کو قریب دو سال ہوگئے  ہیں، میں اور میرے شوہر الگ گھر میں رہتے ہیں، قریب چھ ماہ پہلے ایک موقع پر میرے شوہر نے بیک وقت مجھے تین طلاقیں دے دی تھیں (ایک غلط فہمی کی بنیاد پر)۔ میرے گھر والوں کو فوری طور پر بلایا گیا اور ہمارے گھر انتہائی تناؤ کی صورتِ حال پیدا ہو گئی، میرے والد نے اس مسئلے کے حوالے سے ہمارے خاندانی مفتی سے رابطہ کیا، مفتی صاحب ہماری نظر میں انتہائی قابل احترام ہیں، کیوں کہ وہ ہر ہفتے دینی محفل کا انعقاد کرتے ہیں اور واٹس ایپ گروپ کے ذریعے لوگوں کے شرعی مسائل حل بھی کرتے ہیں، علاقے میں ان کی بہت مضبوط عزت ہے اور علاقے کے بہت سے لوگوں نے ان کے ہاتھ  پر بیعت بھی کی ہوئی ہے، مفتی صاحب نے صورتِ حال کا تنقیدی تجزیہ کرنے اور اپنے اعلیٰ مفتیوں سے مشورہ کرنے کے بعد میرے شوہر کو ایک راستہ بتایا کہ اگر وہ تین طلاق کا کفارہ ادا کردیں (جو کہ کافی رقم بتائی) تو حلالہ کا نعم البدل ہو جاۓ گا اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ہم بچ جائیں گے، یہ رائے (فتویٰ) اس وقت ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھا، میرے شوہر نے مفتی صاحب کو کفارہ ادا کیا (مفتی صاحب نے ذاتی طور پر رقم لی اور ہمیں یقین دلایا کہ وہ کفارہ کی نیت سے اسے خیرات کر دیں گے۔)  انہوں نے ہمارے لیے ایک تحریری مہر شدہ فتویٰ جاری کیا اور تیسرے شخص کی مداخلت کے بغیر (یعنی بغیر حلالہ کے) ہمیں دوبارہ (میرے والد کے گھر) نئے نکاح اور نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ رشتہ ازدواج میں باندھ دیا، شوہر کے گھر والوں کو اس بارے میں کوئی آگاہی نہیں دی گئی، چند ہفتوں تک تو سب کچھ ٹھیک لگ رہا تھا،  لیکن اس کے بعد میرے شوہر اس فتویٰ سے دور ہونے لگ گئے، وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نظر میں  مجرم سمجھنے لگے کہ ان سے شاید کوئی گناہ ہو گیاہے، کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ اسی وقت آگے بڑھنے سے پہلے انہیں کسی مشہور مفتی یا کسی دیوبند ادارے سے مشورہ کرنا چاہیے تھا، ہم اپنے مفتی صاحب کو بچپن سے جانتے ہیں اور ہمیں ان پر اندھا بھروسہ ہے کہ وہ ہمیں غلط راۓ نہیں دے سکتے،  لیکن میں اپنے شوہر کو قائل کرنے سے قاصر ہوں،نتیجتاً وہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے میرے ساتھ کسی بھی قسم کے جسمانی تعلق سے گریز کرنے لگے ہیں، میں نے انہیں کئی بار قائل کرنے کی کوشش کی کہ فتویٰ دینے والا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی نظر میں مجرم قرار پائے گا اگر وہ غلط فتویٰ جاری کرتا ہے، لیکن وہ کئی مشہور مفتیوں کی ویڈیوز  دیکھ کر بس یہی کہتے ہیں کہ ہم نے غلط فتویٰ پر عمل کر لیا ہے اور غلط جگہ پیسے دے کر مقروض بھی ہو گئےہیں۔

میں یہ تصدیق کرنا چاہتی ہوں کہ چوں کہ ہم نے اپنے خاندانی مفتی سے رابطہ کیا تھا جو مسلک کے اعتبار سے دیوبندی ہیں اور ہم نے انہیں ہمارے حق میں فیصلہ دینے کے لیے دباؤ بھی نہیں ڈالا تھا اور انہوں نے فتویٰ کا کفارہ بھی ہم سے لیا تھا، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا عذاب مفتی صاحب پر ہو گا اگر انہوں نے غلط فتویٰ جاری کیا یا ہم بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ گار ہوں گے؟اس بارےمیں شرعی حکم کیا ہو گا؟ اس کے علاوہ میرے گھر والے بھی اس فتوے سے مطمئن ہیں اور وہ اس موضوع پر دوبارہ بحث کرنے سے گریز کر رہے ہیں اور میں نے انہیں یہ بھی نہیں بتایا کہ میرے شوہر اس فتوے سے متفق  نہیں ہیں۔

براہ کرم یہ بھی بتائیں کہ  میرے والد اس طلاق کو قبول نہیں کررہے  ہیں اور نہ مجھے اپنے گھر میں واپس لانے پر اللہ تعالیٰ سے ڈر رہے ہیں، اور دوسری طرف میرے شوہر اس فتوے کو قبول نہیں کررہے ہیں، لیکن گھر میں رہنے دے رہے ہیں، تو میرے لیےشرعاً کیا حکم ہوگا؟ میں اپنے والدین کو لے کربہت زیادہ پریشان ہوں کہ وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کر سکیں گے اگرمیں ان کے گھر واپس آجاؤں اور خاندان والے میرے بارے میں طرح طرح کی باتیں بنائیں۔ براۓ مہربانی کوئی اعتدال کی راہ شرعی اعتبار سے تجویز کی جاۓ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہرنے اگر واقعۃً اسے تین طلاقیں دے دی ہیں،تو وہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، دونوں میاں بیوی کا نکاح  ختم ہوچکا ، نہ دورانِ عدت رجوع جائز تھا، اور نہ ہی تجدیدِ نکاح کرکے ساتھ رہنے کی گنجائش تھی، الا یہ کہ سائلہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کرلیتی اور اس سے جسمانی تعلق (صحبت ) قائم ہو جانے کے  بعد دوسرا شوہر اسے از خود طلاق دے دیتا یا وہ خود اس شوہر سے طلاق لے کراورپھر  اس کی عدت گزار  کروہ  اپنے پہلے شوہر سے نکاح کر تی تو فقط اس صورت میں تجدیدِ نکاح کرکے ساتھ رہنے کی گنجائش تھی۔

لہذا تین طلاقوں کے باوجود سائلہ کا اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ رہنا شرعاً جائز نہیں ہے ،اتنے عرصہ جو میاں بیوی ساتھ رہ رہے ہیں یہ گناہ  کے زمرے میں آئے گا، مردو عورت دونوں پر لازم ہےکہ فوراً علیحدہ ہوجائیں اور اتنے عرصے ساتھ رہنے کی وجہ سےگناہ  کے جو مرتکب ہوئے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور خوب توبہ و استغفار کریں،  باقی سائلہ کو اس معاملہ میں شرعی حکم کو ملحوظ رکھے، والدین یا خاندان والوں کےوقتی ناراضی  کی  وجہ سے اپنی آخرت تباہ نہ کرے،اور والدین کو بھی شرعی حکم بتاکر قائل کرلے،قرآن مجید کی سورۃ المائدہ میں ہے:"وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ"(سورۃ المائدۃ:2) ترجمہ: اورگناه و زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو۔(بیان القرآن)

باقی مذکورہ مفتی صاحب نے جو فیصلہ کرکے فتوی جاری کیاتھا، اس کی نقل ارسال کی جائے، اس کے بارے میں وضاحت کردی جائے گی۔

سورۃ البقرۃ میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

"فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ." (البقرة، آية:230)

ترجمہ:"پھر اگر کوئی(تیسری)طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لیے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک وہ اس کے سوا ایک خاوند کے ساتھ(عدت کےبعد)نکاح کرلے۔"(ترجمہ بیان القرآن)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل -﴿فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾[البقرة: 230] ،وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

( کتاب الطلاق،فصل فی حكم الطلاق البائن،3/ 187،ط سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، الباب السادس فى الرجعة، فصل فيماتحل به المطلقة  و مايتصل به،1/ 473، ط:مكتبة رشيدیة)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"زنا کرنے کا گنہ گارتو زانی ہی ہے ، اگر اس کی کسی نے اس زنامیں مدد کی ہے ،تو مد دکا گنہ گار وہ بھی ہے،جوشخص اس کے فعل سے خوش ہے ، خوش ہونے کا گنہ گار وہ بھی ہے،جوشخص اس سے روک سکتا ہے اگر روکتا نہیں ہے،تو نہ روکنے کا گناہ گاروہ بھی ہے  ۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، باب المعاصی والتوبۃ،ج:24، ص:262/263، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101527

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں