بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت اسی مرد کی پسلی سے پیدا ہوتی ہے جس سے اس کی شادی ہوجائے۔ کی شرعی حیثیت


سوال

اگر عورت مرد کی پسلی سے بنی ہے تو جن عورتوں کی دوسری شادی ہوئی ہے، وہ پسلی کے اعتبار سے کس شوہر کی حقیقی ملکیت ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ  جمہور مفسرین کی رائے کے مطابق صرف حضرت حواء علیہا السلام کی پیدائش حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے ہوئی ہے،اس کے علاوہ کسی بھی عورت کے بارے میں کوئی ایسی روایت منقول نہیں ہے کہ وہ کسی مرد سے یا اپنے شوہر کی بائیں پسلی سے پیداہوئی ہے،  اور لوگوں میں یہ جو مشہور ہے کہ "ہر عورت کی پیدائش اسی مرد سے ہوتی ہے جس سے اس عورت کی شادی ہوجائے، اور اسی بناء پرشوہر اس کا مالک ہوتاہے"  اس کی کوئی  حقیقت نہیں ہے، اسی غلط عقیدہ کی بناء پر ہی مذکورہ سوال کیا گیا ہے، حالانکہ کوئی عورت کسی کی ملکیت نہیں ہے اور نہ حضرت حواء علیہا السلام کے علاوہ کسی عورت کی پیدائش کسی مرد کی پسلی سے ہوئی ہے، البتہ حدیث   شریف میں جو یہ منقول ہے کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اس سے مراد  یہ ہے کہ فطری طور پر عورتوں کی مزاج میں ٹیڑھاپن پایاجاتاہے، لہٰذا اسے سیدھا کرنے کی زیادہ کوشش نہیں کرنی چاہیے، ورنہ یہ ٹوٹ جائے گی، اور ہڈی کا ٹوٹ جانا علیحدگی اور طلاق سے کنایہ ہے، اس لیے عورت کی طرف سے دی جانے والی تکالیف پر صبر کرنا چاہیے،لہٰذا اس عقیدہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے کہ "عورت کی شادی اسی مرد سے ہوتی ہے جس  سے اس کی شادی ہوجائے"۔

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"وَخَلَقَ مِنْها زَوْجَها وهو عطف على خَلَقَكُمْ داخل معه في حيز الصلة، وأعيد الفعل لإظهار ما بين الخلقين من التفاوت لأن الأول ‌بطريق ‌التفريع من الأصل، والثاني بطريق الإنشاء من المادة فإن المراد من الزوج حواء وهي قد خلقت من ضلع آدم عليه السلام والأيسر ، كما روي ذلك عن ابن عمر وغيره، وروى الشيخان «استوصوا بالنساء خيرا فإنهن خلقن من ضلع وإن أعوج شيء من الضلع أعلاه فإن ذهبت تقيمه كسرته وإن تركته لم يزل أعوج»".

(ج:2، ص:392، ط:دار الکتب العلمیة)

بخاری شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة:عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذي جاره واستوصوا بالنساء خيرا، فإنهن ‌خلقن ‌من ‌ضلع، وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه، فإن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته لم يزل أعوج، فاستوصوا بالنساء خيرا)".

(کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنساء، ج:5، ص:1987، ط:دار ابن کثیر)

اس کی تشریح میں ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"قوله: (واستوصوا) قال البيضاوي: الاستئصاء قبول الوصية والمعنى: أوصيكم بهن خيرا فاقبلوا وصيتي فيهن فإنهن ‌خلقن ‌من ‌ضلع، واستعير الضلع للعوج أي: خلقن خلقا فيه اعوجاج فكأنهن خلقن من أصل معوج فلا يتهيأ الانتفاع بهن إلا بمداراتهن والصبر على اعوجاجهن".

(کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنساء، ج:20، ص:166، ط:دار إحیاء التراث العربی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101497

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں