بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ عورت کی دو سال کے بعد ولادت کی صورت میں ثبوت نسب کا حکم


سوال

طلاق کے تقریباً دو سال بعد بیٹا/بیٹی کی ولادت ہو تو نسب کا کیا حکم ہے؟ جب کہ عورت کی کہیں اور شادی نہ ہوئی ہو؟ کیا صرف اس بناپر عورت کو گناہ گار سمجھنا درست ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  خاتون  کو ایک یا دو  طلاق رجعی دی گئی تھی، تو دو سال کے بعد ہونے والے بچے یا بچی کا نسب سابق شوہر سے  ہی ثابت  ہوگا ،اور اگر ایک طلاق بائن یا تین  طلاقیں دی گئی تھیں  پھر دو سال بعد ولادت ہوئی   اور  سابق شوہر نے یہ اقرار بھی نہ کیا کہ بچہ یا بچی میرا ہےتواس صورت  میں  نسب سابق شوہر سے ثابت نہیں ہوگا ،اور جب نسب ثابت نہ ہوا اور عورت کی کہیں اور شادی بھی نہیں ہوئی تھی تو عورت گناہ گار سمجھی جائے گی ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(أكثر مدة الحمل سنتان) لخبر عائشة - رضي الله عنها - (وأقلها ستة أشهر) إجماعا (فيثبت نسب) ولد (‌معتدة ‌الرجعي)(وإن ولدت لأكثر من سنتين) ولو لعشرين سنة فأكثر لاحتمال امتداد طهرها وعلوقها في العدة (ما لم تقر بمضي العدة) والمدة تحتمله (وكانت) الولادة (رجعة) لو (في الأكثر منهما)(لا في الأقل) للشك وإن ثبت نسبه (كما) يثبت بلا دعوة احتياطا (في مبتوتة جاءت به لأقل منهما) من وقت الطلاق لجواز وجوده وقته ولم تقر بمضيها كما مر (ولو لتمامها لا) يثبت النسب (إلا بدعوته) لأنه التزمه، وهي شبهة عقد أيضا".

(كتاب الطلاق، فصل في ثبوت النسب، ج:3، ص:540، ط: سعيد)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144408101201

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں