بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحبِ حق کے حقوق کی ادائیگی میں ٹال مٹول کا حکم


سوال

میں نے ایک شخص کو انگلینڈ میں سکونت اختیار کرنے کے لیے 2019 میں تقریباً 3850000(اڑتیس لاکھ پچاس ہزار )  روپے جس طرح انہوں نے کہا ، ادا کیے ، کرونا کی وجہ سے ترتیب نہیں بن سکی اور وہ رقم ان کے پاس ہی تھی کہ گزشتہ برس مارچ میں ان کا انتقال ہوگیا ،  وہ غیر شادی شدہ تھے اور انگلینڈ میں قیام پزیر تھے، ان کے ساتھ ان کی بہن اور بھانجے رہتے تھے ،  وہ بھی اس بارے میں جانتے تھے۔میرے  پاس تمام ادا ئیگیوں کا ثبوت ہے اور  میں نے ان کے لواحقین سے تمام  ثبوتوں کے ساتھ بات کی ، لیکن وہ رقم کی ادائیگی کے لیے تیار نہیں ہیں ،  میں نے یہ رقم اپنے ریٹائرمنٹ کے واجبات سے لے کر دی تھی۔ 

جواب

واضح رہے کہ صاحب حق کو  اس کا حق ادانہ  کرنا  اور  بلا عذر ٹال مٹول سے کام لینا  ظلم  اور کبیرہ گناہ ہے، اس پر احادیث میں  سخت وعیدیں آئی ہیں،حدیث پاک میں یہاں تک آیا ہے کہ ایسا شخص جب تک قرض ادا نہ کرے اس کے لیے ہر دن اور ہر رات گناہ لکھا جاتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے  ورثاء کوچاہیے کہ جلد سے جلد اس رقم کو ادا کریں تاکہ یہ رقم مرحوم کی پکڑ کا باعث نہ بنے۔ 

بخاری شریف میں ہے:

"عن سلمة بن الأكوع، رضي الله عنه، قال : كنا جلوسًا عند النبي صلى الله عليه وسلم، إذ أتي بجنازة، فقالوا: صل عليها، فقال: هل عليه دين؟ قالوا: لا، قال: فهل ترك شيئًا؟ قالوا: لا، فصلى عليه، ثم أتي بجنازة أخرى، فقالوا: يا رسول الله، صل عليها، قال: هل عليه دين؟ قيل: نعم، قال: فهل ترك شيئًا؟ قالوا: ثلاثة دنانير، فصلى عليها، ثم أتي بالثالثة، فقالوا: صل عليها، قال: هل ترك شيئًا؟ قالوا: لا، قال: فهل عليه دين؟ قالوا: ثلاثة دنانير، قال: صلوا على صاحبكم، قال أبو قتادة: صل عليه يا رسول الله، وعلي دينه، فصلى عليه."

(رقم الحدیث:2298،ج:3ص:124،ط:دارالشعب القاھرۃ)

"ترجمہ: حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اس اثنا میں ایک جنازہ لایا گیا، لوگوں نے عرض کیا: اس پر نماز پڑھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر کوئی قرض ہے؟ صحابہ نے  کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے اس پر نماز پڑھی۔ پھر ایک دوسرا جنازہ لایا گیا، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم اس پر نماز پڑھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے کوئی چیز چھوڑی ہے؟ لوگوں نے کہا: تین دینار، تو آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے اس پر نماز پڑھی۔ پھر ایک تیسرا جنازہ لایا گیا تو لوگوں نے عرض کیا، آپ  اس پر نماز پڑھ دیں، آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا:اس نے کوئی چیز چھوڑی ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر قرض ہے؟ لوگوں نے کہا: تین دینار، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے ساتھی پر نماز پڑھ لو۔ ابوقتادہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ اس پر نماز پڑھیں، میں اس کے قرض کا ذمہ دار ہوں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔"

مسند أحمد میں ہے:

"عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من اقتطع مال امرئ مسلم ‌بغير ‌حق، لقي الله عز وجل ‌وهو ‌عليه ‌غضبان."

(مؤسسة الرسالة، ج:7، ص:59)

فتاوی شامی ہے:

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير ‌سبب ‌شرعي."

(کتاب الحدود، باب التعزیر، ج:4، ص:61،  ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101000

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں