بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹی کے حق میں باپ کی گواہی کا حکم


سوال

میرا نکاح مارچ 2021 میں عدالت کی طرف سے شوہر کے ازدواجی اور معاشی حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے فسخ ہوا۔اب میرے شوہر کے گھر والے کہتے ہیں کہ نکاح ختم نہیں ہوا اور صلح کرنے کو کہتے ہیں لیکن کوئی گارنٹی نہیں دیتے کہ وہ میرا گھر بسائیں گے۔لڑکا میرے ماموں کا بیٹا ہے اور میرے نکاح کو 12 سال ہو گئے ہیں اور اس کا رویہ غیر سنجیدہ ہے 2سال میری شادی کو ہوئے ہیں اور میں 15 دن ان کے گھر بسی۔ لڑکا صلح کی بات پر گھر والوں کو خود کشی کی دھمکی دیتا تھا اس کے علاوہ میری والدہ کو اپنے والد کی طرف سے کچھ جائیداد وراثت میں ملی تھی۔ جو کہ میری والدہ نے مجھے ہی دینی تھی لیکن میرا شوہر مجھے با ر بار یہ کہتا تھا کہ وہ زمین ہماری ہے ہمیں واپس کرو اس کے علاوہ میری میڈیکل کی پڑھائی کا خرچہ بھی آپ لوگ اٹھاؤ ۔اب وہ دوبارہ صلح کا کہہ رہے ہیں اور کسی قسم کی صفائی بھی نہیں دیتے،کہتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی۔اور وہ کہتے ہیں طلاق بھی نہیں دیں گے۔برائے مہربانی مجھے آپ بتائے کہ میرا نکاح فسخ ہوا ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شرعی اصول کے مطابق مدعی اپنے دعویٰ پرخود کو گواہ نہیں بنا سکتا،نیز دعویٰ کے اثبات کے لیے شرعی طور پر ایسے دوگواہوں کا ہونا ضروری ہے جو مدعی کے اصول (باپ،دادا وغیرہ)وفروع(بیٹا،پوتا وغیرہ)نہ ہو۔

لہذاصورت مسئولہ میں عورت نےتنسیخ نکاح کے مقدمے میں عدالت میں اپنے موقف پر بطور گواہ 1۔خود کو،اور 2۔اپنے والد کو پیش کیا ہے،جبکہ شرعی اعتبار سے مدعیہ اپنے دعویٰ پر خود گواہ نہیں بن سکتی،دوم یہ ہے کہ والد کی گواہی اولاد کے حق میں قابل قبول نہیں ہوتی،لہذا تنسیخ نکاح کا فیصلہ شرعا معتبر نہیں ہے،دونوں کا نکاح بحال ہے۔

باقی اگر مدعیہ اپنے دعویٰ کو عدالت میں شرعی گواہوں سے ثابت کردے اور عدالت مکمل تحقیق کے بعد مذکورہ وجوہات(نان ونفقہ کی عدم ادائیگی وغیرہ) کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کردے تو نکاح فسخ ہوجائے گا،اور اس کے بعد عورت کو عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے کی اجازت ہوگی۔

اگر زمین سے متعلق شوہر کا دعوی ہے کہ وہ اس کی ہے تو اس پر اپنے دعوی کے مطابق گواہ پیش کرنا ضروری ہے،نیز بیوی کے گھر والوں سے پڑھائی کے خرچہ کا مطالبہ بھی شرعا معتبر نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا تجوز شهادة الوالدين لولدهما وولد ولدهما، وإن سفلوا، ولا شهادة الولد لوالديه وأجداده وجداته من قبلهما، وإن علوا، ولا شهادة الزوج لامرأته، وإن كانت مملوكة أيضا ولا شهادة المرأة لزوجها، وإن كان مملوكا أيضا، كذا في الحاوي."

(کتاب الشهادات،الفصل الثالث فيمن لا تقبل شهادته للتهمة،ج3،ص469،ط؛دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100958

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں