بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑائی کے درمیان کوئی قتل ہوجائے اور قاتل معلوم نہ ہو تو دیت کس پر لازم ہوگی؟


سوال

دو گروپوں کے درمیان رات کے وقت لڑائی چل رہی تھی، اسی دوران ایک تیسرا شخص جو ان کے درمیان صلح کررہا تھا  قتل ہوا، جب کہ اسلحہ صرف الف فریق کے پاس تھا، مذکورہ صورت میں دیت کس فریق پر لازم ہے؟ اور آج کل مروجہ دیت کتنی ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں جب  تک دونوں فریقوں میں سے کوئی فریق قتل کا اقرار نہ کرے یا شرعی گواہوں  کے ذریعے ان  میں سے کسی ایک فریق کا قاتل ہونا ثابت نہ ہوجائے تب تک   کسی فریق پر شرعا دیت و قصاص میں سے کوئی چیز بھی لازم نہیں ہوگی ،محض کسی فریق کے پاس اسلحہ پایا جانا قرینہ  ضرورہے مگر حتمی ثبوت نہیں ہے البتہ قرینہ اگر قوی ہو تو عدالت اس کی بناء پر تعزیری سزا ملزم پر جاری کرسکتی ہے۔

دیت کی مقدار یہ ہے کہ دیت اگر  سونے کی صورت میں ادا کی جائے تو اس کی مقدار ایک ہزار (1000) دینار یعنی 375 تولہ سونا جس کا اندازا جدید پیمانے سے 4 کلو 374 گرام سونا یا اس کی قیمت بنتی ہے،  اور اگر دراہم (چاندی) کے اعتبار سے ادا کرنا ہو تو دس ہزار (10000) درہم یعنی 2625 تولہ چاندی جس کا اندازا جدید پیمانے سے 30 کلو 618 گرام چاندی یا اس کی قیمت بنتی ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" ومنها الشهادة ببقية الحدود والقصاص تقبل فيها شهادة رجلين، ولا تقبل في هذين القسمين شهادة النساء هكذا في الهداية....الخ."

(كتاب الشهادات ،الباب الثاني في بيان تحمل الشهادة وحد أدائها والامتناع عن ذلك،3/ 451،ط:رشيدية)

فتح القدیرمیں ہے:

"(ومن العين ألف دينار ومن الورق عشرة آلاف درهم)."

(فتح القدیر،کتاب الدیات :275/10،ط:دارالفکر)

موسوعۃ فقہیۃ کویتیۃ میں ہے:

"ومما يؤخذ من كتبهم أنهم يعملون القرائن - إن اعتبروها عاملة - في خصوص حقوق العباد، ولا يعملونها في القصاص والحدود، فاعتبروا مثلا سكوت البكر أو صمتها قرينة على الرضا، وقبض الهبة والصدقة بحضرة المالك مع سكوته إذنا بالقبض، ووضع اليد والتصرف قرينة على ثبوت الملكية، وقبول التهنئة في ولادة المولود أيام التهنئة المعتادة قرينة على ثبوت النسب منه."

(الموسوعة الفقهية الكويتية،باب القاف:33/ 160،ط:دار السلاسل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408100783

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں