بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو طلاقِ رجعی دینے کے بعد رجوع کرنے کا حکم


سوال

میں نے اپنی بیوی کو 4 رمضان کو  دو طلاقیں دی تھیں اور اس کے بعد میں نے اس سے دو یا تین بار کال کرکے اور دو بار میں نے سامنے بات کی اور کہا کہ بہو کی خاطر واپس جاؤ،آپ سے معلوم کرنا ہے کہ طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟کیوں کہ میں نے ایک استاذ سے معلوم کیا،وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ نے تین ماہ دس دن کے اندر اندر رجوع کیا ہے تو طلاق واقع نہیں ہوئی ہے؟آپ اس کے بارے میں راہ نمائی کریں۔

وضاحت:

1.میں نے کہا تھا کہ  ۔۔۔ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،  ۔۔۔ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔

2.رجوع کے الفاظ یہ تھے:میں تمہیں واپس گھر لانا چاہتا ہوں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً سائل نے اپنی بیوی کو صرف دو مرتبہ مذکورہ الفاظ :"  ۔۔۔ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،  ۔۔۔ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" کہے ہیں، تیسر ی بار مذکورہ الفاظ نہیں کہے، تو اس  صورت میں  سائل کی بیوی پر دو طلاقِ رجعی واقع ہوگئی ہیں،جن کا حکم یہ ہے کہ اگر شوہر چاہے تو عدت (طلاق کے وقت سے مکمل تین حیض  تک،اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی ولادت تک اور اگر حیض نہ آتا ہو تو مکمل تین مہینے) گزرنے سے پہلے اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے،رجوع کرنے کے بعد نکاح قائم رہے گا۔

اور  رجوع  کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ شرعی گواہوں کی موجودگی میں بیوی کی عدم موجودگی میں یا اس کےسامنے اُس  سے کہہ دے کہ میں تم سے رجوع کرتا ہوں  یا رجوع کیا/کرلیا، یا اگر زبان سے کچھ نہ کہے لیکن رغبت اور خواہش کے ساتھ بیوی کوہاتھ لگا لے یا ازدواجی تعلقات قائم کرلے تو اس سے  بھی رجوع ہوجاۓ گا، اور اس  کے بعد دونوں پھر میاں بیوی کی حیثیت سے ساتھ رہ سکتے ہیں ۔

اور اگر رجوع کیے بغیر ہی عدت گزر گئی تو  نکاح ختم ہوجاۓ گا، اور بیوی دوسری جگہ نکاح کرنے کے لیے آزاد ہوگی، اور دوبارہ ساتھ رہنے کے لیےباہمی رضامندی سے  شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور نئے ایجاب و قبول کے ساتھ تجدیدِِ نکاح کرنا ضروری ہوگا ۔

البتہ اتنی بات واضح رہے کہ خواہ رجوع کیا جاۓ یا دوبارہ نکاح کیا جاۓ ،دونوں صورتوں میں  شوہر کے پاس صرف ایک طلاق دینے کا اختیار باقی رہ جاۓ گا، اور اگر وہ ایک طلاق بھی دے دی تو بیوی مغلظہ ہو کر حرام ہوجاۓ گی، اور پھر بغیر حلالہ شرعیہ کے رجوع کرنا بھی درست نہیں ہوگا ،لہٰذا اس معاملے میں حتی الامکان احتیاط کی ضرورت ہے۔

نیز مذکورہ الفاظ "میں تمہیں واپس گھر لانا چاہتا ہوں "سے رجوع نہیں ہوگا ،کیوں کہ  رجوع ثابت ہونے کے لیے قولاً یا فعلاً رجوع کرنا ضروری ہے،(جس کا طریقہ اوپر مذکور ہے) جب کہ ان الفاظ سے  صرف رجوع کا ارادہ اور اظہار سمجھ میں آتاہے ، قولاً یا فعلاً رجوع نہیں پایا جاتا۔

عدت کے اندر رجوع کرنے سے طلاق ختم نہیں ہوتی البتہ نکاح بدستور قائم رہتا ہے، اس لیے ایک استاد نے آپ کو جو جواب دیا ہے وہ درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وتصح مع إكراه وهزل ولعب وخطإ (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح."

(كتاب الطلاق،باب الرجعة،398،99/3،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"(وندب إعلامها بها) لئلا تنكح غيره بعد العدة، فإن نكحت فرق بينهما وإن دخل شمني(وندب الإشهاد) بعدلين ولو بعد الرجعة بالفعل (و) ندب (عدم دخوله بلا إذنها عليها) لتتأهب وإن قصد رجعتها لكراهتها بالفعل كما مر."

(كتاب الطلاق، باب الرجعة، 401/3، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"و هو كأنت طالق و مطلقة و طلقتك وتقع واحدة رجعية و إن نوى الأكثر أو الإبانة أو لم ينو شيئًا، كذا في الكنز."

(كتاب الطلاق،الباب الثاني في إيقاع الطلاق،الفصل الأول في الطلاق الصريح،ج:1،ص:354،ط:رشيديه)

وفيه أيضًا:

"و إذا طلق الرجل امرأته تطليقةً رجعيةً أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض."

‌‌(كتاب الطلاق‌‌، الباب السادس في الرجعة و فيما تحل به المطلقة و ما يتصل به، ج:1، ص:470، رشيديه)

وفيه أيضًا:

"الرجعة إبقاء النكاح على ما كان ما دامت في العدة كذا في التبيين وهي على ضربين: سني وبدعي (فالسني) أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فإذا راجعها بالقول نحو أن يقول لها: راجعتك أو ‌راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو بدعي مخالف للسنة والرجعة صحيحة وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد كذا في الجوهرة النيرة.

(ألفاظ الرجعة صريح وكناية) (فالصريح)راجعتك في حال خطابهاأوراجعت امرأتي حال غيبتهاوحضورها أيضاومن الصريح ارتجعتك ورجعتك ورددتك وأمسكتك ومسكتك بمنزلة أمسكتك فهذه يصير مراجعابهابلانية."

(کتاب الطلاق،الباب السادس فی الرجعة وفیما تحل به المطلقة ومایتصل به،468/1،ط:ماجدية)

وفيه أيضًا:

"إذا كان الطلاق بائنًا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة و بعد انقضائها."

(کتاب الطلاق،الباب السادس،فصل فیما تحل به المطلقة ومایتصل به،473/1،ط: ماجدية)

ہدایہ میں ہے:

"و إذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض " لقوله تعالى: {فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ} [البقرة: 231] من غير فصل و لا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك ألا ترى أنه سمى إمساكًا و هو الإبقاء وإنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائها "و الرجعة أن يقول: راجعتك أو راجعت امرأتي" و هذا صريح في الرجعة و لا خلاف فيه بين الأئمة. قال: "أو يطأها أو يقبلها أو يلمسها بشهوة أو بنظر إلى فرجها بشهوة."

(کتاب الطلاق،باب الرجعة،405/2،ط:رحمانية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144407100243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں