بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پونچھا لگانے سے جگہ پاک ہو جاتی ہے؟


سوال

پونچھا لگانے سے جگہ پاک ہو جاتی ہے؟

جواب

واضح رہے کسی جگہ کی زمین کچی ہے، جو پانی وغیرہ جذب کرلیتی ہےتو اس صورت میں خشک ہونے کے بعد اگر نجاست کا اثر زائل  ہوجائے تو پاک ہوجائے گی، اس پر نماز پڑھی جاسکتی ہے اور اگر زمین سخت ہے، پانی جذب نہیں کرتی یعنی پکے فرش  ماربل وغیرہ کاہے  تو  اگر وہ خشک ہوجائے اور نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے تو وہ فرش بھی پاک ہوجائے گا،لیکن اگر وہ  خشک ہوکرجذب تو ہوگیا، لیکن نجاست کااثر  موجود ہو تو اس صورت میں تین بار پانی بہاکر اس کو پاک کرلیاجائے ، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ جگہ پکا فرش ہے اور اس پر نجاست کا اثر موجود ہے تو اس پر اچھی طرح نجاست زائل ہونے تک پونچھا لگانے سے جگہ پاک ہوجائے گی۔

نیز  بعض فتاویٰ میں ماربل یا ٹائل وغیرہ لگے ہوئے فرش پر نجاست خشک ہونے کی صورت میں بھی اسے دھونے یا اس پر پونچھا لگانے کا حکم لکھاہے، یہ حکم احتیاط پر مبنی ہے،  فتویٰ کی رُو سےتو مذکورہ زمین خشک ہونے اور نجاست کا اثر باقی نہ رہنے کی صورت میں بغیر دھوئے بھی پاک ہوجائے گی، لیکن جہاں سہولت ہو احتیاط پر عمل کرنا چاہیے۔تاہم دونوں صورتوں میں  پانی سے دھوئے بغیر اس پر  تیمم نہیں کیا جاسکتا ۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الأرض إذا تنجست ببول واحتاج الناس إلی غسلها، فإن کانت رخوةً یصب الماء علیها ثلاثاً فتطهر، وإن کانت صلبةً قالوا: یصب الماء علیها وتدلك ثم تنشف بصوف أوخرقة، یفعل کذلك ثلاث مرات فتطهر، وإن صب علیها ماء کثیر حتی تفرقت النجاسة ولم یبق ریحها ولا لونها وترکت حتی جفت تطهر، کذا في فتاویٰ قاضی خان."

(الباب السابع في النجاسة وأحكامها، الفصل الأول في تطهير الأنجاس:ج:1، 43، ط:حقانیة)

وفیه أیضاً:

"(ومنها) الجفاف وزوال الأثر الأرض تطهر باليبس وذهاب الأثر للصلاة لا للتيمم. هكذا في الكافي ولا فرق بين الجفاف بالشمس والنار والريح والظل. كذا في البحر الرائق ويشارك الأرض في حكمها كل ما كان ثابتا فيها كالحيطان والأشجار والكلأ والقصب ما دام قائما عليها فإذا انقطع الحشيش والخشب والقصب وأصابته النجاسة لا يطهر إلا بالغسل. كذا في الجوهرة النيرة.

الآجرة إذا كانت مفروشة فحكمها حكم الأرض تطهر بالجفاف وإن كانت موضوعة تنقل وتحول لا بد من الغسل هكذا في المحيط وكذا الحجر واللبنة. هكذا في منية المصلي فإن قلع بعد ذلك هل يعود نجسا فيه روايتان. كذا في فتاوى قاضي خان الحصى حكمه حكم الأرض إذا كان فيها وأما إذا كان على وجه الأرض لا يطهر. كذا في المحيط وهكذا في منية المصلي."

(الباب السابع في النجاسة وأحكامها،الفصل الأول في تطهیر النجاسة: ج:1، ص:44، ط: حقانیة)

حاشية الطحطاويؒ میں ہے:

 "وإذا ذهب أثر النجاسة عن الأرض و" قد "جفت" ولو بغير الشمس على الصحيح طهرت و "جازت الصلاة عليها" لقوله صلى الله عليه وسلم: "أيما أرض جفت فقد زكت" "دون التيمم منها".

قوله: "وإذا ذهب أثر النجاسة عن الأرض" المراد بالأرض ما يشمله إسم الأرض كالحجر والحصى والآجر واللبن ونحوها إذا كانت متداخلة في الأرض غير منفصلة عنها وإن لم تكن كذلك فلا بد من الغسل ولا تطهر بالجفاف لأنها حينئذ لا تسمى أرضا عرفا ولذا لا تدخل في بيع الأرض حكما لعدم اتصالها بها على جهة القرار فلا تلحق بها كما في القهستاني ومنية المصلي وشرحيها للحلبي وابن أمير حاج إلا انهم أطلقوا في الحصى فلم يقيدوه بالاتصال وفي الخانية الحجر إذا كان يتشرب النجاسة كحجر الرحى يطهر بالجفاف كالأرض وإن كان لا يتشرب يعني كالرخام لا يطهر إلا بالغسل وحمل الحلبي هذا التفصيل في الحجر المنفصل الذي ينقل ويحول وعليه مشى صاحب الدر حيث قال فالمنفصل يغسل لا غير إلا حجرا خشنا كرحى فكارض اهـ"

( كتاب الطهارة، باب الأنجاس والطهارة عنها، ص: 164، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101709

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں