بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں جھوٹ بولنا


سوال

میں نے چوری کی تھی جرگہ میں لوگوں نے میرے سے پوچھا کیا تم نے چوری کی ہے میں نے کہا نہیں کی پھر مسجد کے اندر چلے گۓ وہاں پوچھا تو میں نہیں بولا اسی بات پر معاملہ ختم ہو گیا  ایک سال بعد میں نے خود کہا کہ میں نے چوری کی ہے آدھی چیزیں واپس کر دیں آدھی معاف کرا لی۔

جواب

واضح رہے جھوٹ بولنا قرآن و حدیث کی رو سے ناجائز  حرا م  اور گناہ کبیرہ ہے لہذا صورت مسئولہ میں سائل نے جو مسجد میں جھوٹ بولا تھا سائل کے ذمہ توبہ و استغفار لازم ہے اور آئندہ جھوٹ بولنے سے احتراز کرنا لازم ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"إن الله لا يهدي من هو مسرف كذاب."(الغافر:۲۸)

ترجمہ:" اللہ تعالی ایسے شخص کو مقصود تک نہیں پہنچاتا جو (اپنی) حد سے گزرجانے والا،  بہت جھوٹ بولنے والا ہو۔ "(بیان القرآن)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  «‌آية ‌المنافق ثلاث» . زاد مسلم: «وإن صام وصلى وزعم أنه مسلم» . ثم اتفقا: «إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا اؤتمن خان»."

(کتاب الایمان ، باب الکبائر و علاما ت النفاق جلد ۱ ص: ۲۳ ط: المکتب الاسلامي)

ترجمہ:"اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافق کی تین علامتیں ہیں ، اس کے بعد مسلم رحمہ اللہ نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا اگر چہ وہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرے اس کے بعد بخاریؒ اور مسلمؒ دونوں متفق ہیں (وہ تین علامتیں یہ ہیں )جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔"(مظاہر حق)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144405101879

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں