بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کے شئیرز صرف کاغذات میں کسی کے نام کرنے سے وہ ان کا مالک نہیں بنتا


سوال

میں نے 2008 میں ایک پرائیویٹ کمپنی بنائی تھی جس میں مجھے ایک عدد حصہ دار کی ضرورت تھی جس کے لیے میں نے اپنی زوجہ کو حصہ دار بنایا تھا، میرے حصص کی تعداد 54 فیصد ہیں اور میری زوجہ کے حصص کی تعداد 46 فیصد، کمپنی بنانے میں جتنی رقم لگی تھی وہ تمام میں نے خود لگائی تھی اس میں میری زوجہ کا کوئی حصہ نہیں تھا، اب میری زوجہ کا رب کی رضا سے انتقال ہو گیا ہے ،  میرا ایک بیٹا ہے اور ایک بیٹی ہے، میری کمپنی میں جو حصہ دار کی سیٹ خالی ہوئی ہے اس میں دونوں کو اس میں شامل کرنا لازم ہے یا میں صرف بیٹے کو شامل کر سکتا ہوں ؟ یا میری زوجہ کے جو 46 فیصد کا شرعی طور پر بہتر تقسیم ہو اس کا مجھے جواب عنایت کر دیں۔

وضاحت : میں نے اپنی زوجہ کو قانونی ضرورت کے بنا پر محض کاغذات میں حصہ دار بنایا تھا۔

جواب

واضح رہے کہ کسی کو بلا معاوضہ کسی چیز کا مالک بنانے کے لیے یہ ضروری  ہوتا ہے کہ سامنے والے کو اس چیز کے  مکمل مالکانہ اختیارات و تصرفات  بھی دے دیے جائیں، محض کاغذات پر نام کر دینے سے گفٹ کا عمل مکمل نہیں ہوتا اور  ملکیت منتقل نہیں ہوتی ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں سائل کا اپنی مرحومہ زوجہ کو  قانونی ضرورت کی بنا پر محض کاغذات میں کمپنی کے 46 فیصد کا حصہ دار بنا دینے اس کی زوجہ اس کی کمپنی میں شریک نہیں ہوئی تھی، بلکہ مکمل کمپنی سائل ہی کی ملکیت ہےاور اس میں تصرف اور انتظامات کا مکمل اختیار سائل کو حاصل ہے،  قانونی طور پر حصہ دار کی خالی سیٹ میں اس کی صواب دید پر ہے کہ بیٹا اور بیٹی دونوں کو شامل کرے یا صرف بیٹے کو، تاہم حقیقی طور پر اگر وہ کچھ گفٹ کرنا چاہے تو اس میں اولاد کے درمیان برابری کرنا ضروری ہوگا، یعنی جتنا بیٹے کو دے رہا ہو اتنا ہی اپنی بیٹی کو بھی دے، ہاں اگر کوئی ایسی شرعی وجہ ہو جس کی بنا پر کسی ایک کو دوسرے سے زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے۔

"الدر المختار مع رد المحتار"میں ہے:

"(بخلاف ‌جعلته ‌باسمك فإنه ليس بهبة.

وقوله: بخلاف ‌جعلته ‌باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: ‌جعلته ‌باسمك، لا يكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: ‌جعلته لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لا يكون هبة، ولو قال: أغرس باسم ابني، فالأمر متردد، وهو إلى الصحة أقرب اهـ."

(كتاب الهبة، ج:5، ص:689، ط:سعيد)

"مجلة الأحكام العدلية" میں ہے:

"(المادة 57) : لا يتم التبرع إلا بقبض.

فإذا وهب أحد شيئا إلى آخر لا ‌تتم ‌الهبة قبل القبض."

(المقدمة، المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ص:22، ط:نور محمد)

"بدائع الصنائع"میں ہے:

"وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في ‌النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 90] .

(وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.

وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي - عليه الصلاة والسلام - فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة."

(كتاب الهبة، فصل في شرائط ركن الهبة، ج:6، ص:127، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں