بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل اکاؤنٹ سے پیسہ کیش کرنے کی صورت میں دکان دار کا کچھ رقم لینا شرعاً کیسا ہے؟


سوال

موبائل اکاؤنٹ پر جو لوگ پیسے بھیجتے ہیں، اس پر کمپنی ٹیکس نہیں لیتی، لیکن جس موبائل شاپ سے آدمی پیسے نکالتــا ہے،  وہ دکان دار  ہزار روپے پر بیس روپے کاٹ لیتا ہے، تو یہ پیسے لیناجائز ہے یا نہیں؟

وضاحت:  اس کی تفصیل یہ ہے کہ عام طورپر لوگ موبائل اکاؤنٹ کا استعمال آج کل بہت کررہے ہیں، تقریباً ہر شخص نے ایزی پیسہ اکاؤنٹ یا جاز کیش اکاؤنٹ بنایا ہوا ہے،  اس ایپ میں اپنے پیسے رکھتے ہیں، اس ایپ کے ذریعے  آن لائن پیسہ بھیجنے میں کافی سہولت ہوتی ہے؛  کیوں کہ اس ایپ کے علاوہ اگر پیسوں کو بھیجنےکا کام سر انجام دیا جائے، تو اس میں ٹیکس زیادہ لاگو ہوتاہے، لیکن اس ایپ کے ذریعے ایک دوسرے کو ایپ ہی کے ذریعے پیسوں کی منتقلی میں کوئی ٹیکس  لاگو نہیں ہوتا ہے، اس وجہ سےعوام الناس اس ایپ کا استعمال کثرت سے کرتی ہے، تاہم اس ایپ میں پیسے ڈالنے اور نکالنے کےلیے دکان دار کی ضرورت پڑتی ہے، یعنی جب کوئی اپنے کیش(نقد رقم) کو اس ایپ میں منتقل کرنا چاہے، یا اس ایپ میں موجود رقم کو نقدی صورت میں حاصل کرنا چاہے، تو اس کےلیے وہ دکان دار کے پاس جاتا ہے، پیسے ڈالنے کی صورت میں وہ مذکورہ رقم کسٹمر سے نقدی صورت میں لے کر اپنے اکاؤنٹ سے اتنی رقم کسٹمر کے اکاؤنٹ میں منتقل کرلیتاہے، اور پیسے نکالنے کی صورت میں دکان دار کسٹمر کے اکاؤنٹ سے مذکورہ رقم(جتنی کسٹمر کونکالنی ہوتی ہے) اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کرکے کسٹمر کو نقدی صورت میں رقم دے دیتاہے۔

دکان دار کے لیے ’’ایزی پیسہ یا جاز کیش‘‘ کا جو اکاؤنٹ کھولا جاتاہے،وہ ’’ریٹیلر اکاؤنٹ‘‘ کہلاتا ہے، پیسے بھیجنے کی بھی پھر مختلف صورتیں ہوتی ہے،  ایک صورت تو یہ ہےکہ کوئی کسٹمر اگر شناختی کارڈ کے ذریعے اپنے اکاؤنٹ میں مثلاً1000روپے ڈالنے کے لیے آئے تو کمپنی اس سے مثلاًساٹھ(60) روپے ٹیکس لیتی ہے ، جس میں سےمثلاً بیس(20) روپے دکان دار کا کمیشن ہوتا ہے ،جبکہ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر کوئی ’’ایزی پیسہ یا جاز کیش‘‘ اکاؤنٹ  والے حضرات آتے ہیں ،اور اپنے اکاؤنٹ میں پیسے ڈلواتے ہیں ،تو انہیں پیسہ ڈلواتے وقت ان پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا،البتہ دکان دار کو کمپنی کی طرف سے مثلاً 1000 روپے کی صورت میں  آٹھ  سےدس روپےکمیشن  ملتا ہے،اور اگر یہی کسٹمر اپنے اکاؤنٹ سے پیسے نکلوائے ،تو اس سے مثلاً1000روپے کی صورت میں مثلاً بیس (20) روپےکمپنی اوپر لیتی ہے،جس میں سے دکان دار کاکمیشن آٹھ سے دس روپےبھی آجاتاہے، یعنی کسٹمر کے اپنے اکاؤنٹ میں پیسے ڈالنےکی صورت میں کمپنی اس کسٹمر سے  رقم چارجز کے طور پر نہیں لیتی ہے، البتہ اکاؤنٹ سے نکالنے کی صورت میں کسٹمر سے کچھ رقم چارجز کے طور پر لیتی ہے، لیکن دکان دار کو دونوں صورتوں میں کمیشن مل رہا ہوتاہے۔

اسی طرح ایک اور طریقہ بھی ہے ، جس میں دکاندار کی بچت زیادہ ہوتی ہے اور وہ طریقہ یہ ہےکہ دکان دار کااگر اپناکسٹمر اکاؤنٹ ہوتو اس میں بھی یہ سارا سسٹم ہوتا ہے، اس میں اگر دکاندار کسی کسٹمر کو اپنے اکاؤنٹ سےمثلاً 1000روپے بھیجے، تو اس پر کوئی ٹیکس نہیں لگتا ،اور کمپنی کی طرف سے بھی کوئی کمیشن نہیں ہوتا ،لیکن اگر کسی کسٹمرکے مثلاً1000 روپے کیش کرے تو اس صورت میں دکان دار کسٹمر سے مثلاً1000روپے پر 20 روپے لیتا ہے ، لیکن کمپنی کو کوئی کمیشن نہیں دینا پڑتا، (ریٹیلر اکاؤنٹ کی صورت میں جتنی رقم کمپنی کسٹمر کے اپنے اکاؤنٹ سے نکالنے کی صورت میں بطورِچارجز لیتی ہے، تو دوکان دار اگر ریٹیلر اکاؤنٹ استعمال نہ کرے، اور اپنا کسٹمروالا اکاؤنٹ استعمال کرے، تو اتنی ہی رقم کسٹمر سے لے کر ساری رقم خود اپنے پاس رکھ لیتاہے)، زیادہ تر دکان دار اسی طریقہ کو اپناتے ہیں؛ کیوں کہ اس صورت میں انہیں زیادہ نفع ملتاہے، اس صورت میں جو رقم کمپنی نے لینی تھی، وہ ساری دکان دار خود لیتاہے، اور زیادہ فائدہ ہونے کی وجہ سے دکان دار اسی طریقہ پر کسٹمر کے اکاؤنٹ سے پیسے کیش کرواتے ہیں۔

مذکورہ تفصیل کے بعد اب مجھے یہ پوچھنا ہے کہ جب ایک شخص دوسرے کو پیسہ بھیجتا ہے، تو اس پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا، البتہ اگر کوئی شخص اپنی رقم اکاؤنٹ سے کیش  کرنا چاہیں(نقدی صورت میں وصول کرنا چاہیں)، تو اس صورت میں پھر دکان دار پیسہ کیش کروانے کی صورت میں اس سے ہزار روپے پر بیس روپے بطورِ ٹیکس کے لیتا ہے، تو یہ پیسہ لینا شرعاً جائز ہے یانہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ  تفصیل کے مطابق چوں کہ’’ایزی پیسہ یا جاز کیش ‘‘  کمپنی کی طرف سے اپنے کسٹمر کے لیے ایک سروس  کی فراہمی ہے، جن میں ’’ایزی پیسہ یا جاز کیش‘‘ اکاؤنٹ استعمال کرنے والوں کو خصوصی رعایت دی جاتی ہے،اس لیے کہ ’’ایزی پیسہ یا جاز کیش ‘‘ کے اکاؤنٹ کے بغیر پیسہ کے منتقلی میں اس پر لاگو ہونے والے ٹیکس کی شرح زیادہ ہوتی ہے،  اور اکاؤنٹ استعمال کرنے والوں کےلیے رقم کی منتقلی ٹیکس کی شرح بہت کم ہے، یعنی کمپنی اپنے کسٹمر کو ایک سہولت فراہم کررہی ہے، اور اس کے بدلے ان سے رقم کیش (نقدی صورت میں وصول) کرتے وقت کچھ رقم بطورِ اجرت کے لیتی ہے، تو کمپنی کا اس طرح سہولت کی فراہمی کے بدل میں کسٹمر سے کچھ رقم بطورِ اجرت لینا شرعاً جائز ہے۔

البتہ دکاندار کا ریٹیلر اکاؤنٹ کے بجائے کسٹمر والا اکاؤنٹ استعمال کرنا اور  اس کے ذریعے پیسوں کی منتقلی کرنا اور  ریٹیلر اکاؤنٹ  پر لاگو  ہونے والے ٹیکس کے بقدر کسٹمر سےذاتی طور پر رقم لینا اگر کمپنی کے قواعد و ضوابط کے خلاف ہے ،یعنی کمپنی دکاندار  کو اضافی رقم نہ لینے کا قانوناً پابند بناتی ہو تو اس صورت میں یہ رقم لینا جائز نہیں ہے،تاہم اگر یہ صورت کمپنی کے قواعد و ضوابط کےمطابق ہو تو پھراس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی  میں ہے:

"وفی الدلال والسمسار یجب أجر المثل، وماتواضعوا علیه أن فی کل عشرة دنانیر کذافذاك حرام علیہم. وفی الحاوی: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: کي أرجو أنه لا بأس به وإن کان فی الأصل فاسدا لکثرة التعامل وکثیر من هذا غیر جائز، فجوزوہ لحاجة الناس إلیه كدخول الحمام."

(کتاب الإجارۃ،باب الإجارۃ الفاسدۃ،مطلب في استئجار الماء مع القناة واستئجار الآجام والحياض للسمك،ج:6،ص:63،ط:سعید)

فقه البيوع ميں ہے:

"أن دائرة البرید نتقاضی عمولة من المرسل علی إجراء هذہ العملیة فالمدفوع إلی البرید أکثر مما یدفعه البرید إلی المرسل إلیه فکان فی معنی الربا ولهذالسبب أفتی بعض الفقهاء فی الماضی القریب بعدم جواز إرسال النقود بهذالطریق ولکن أفتی کثیر من العلماء المعاصرین بجوازهاعلی أساس أن العمولة التی یتقاضاها البرید عمولة مقابل الأعمال الإداریةمن دفع الاستمارة وتسجیل المبالغ وإرسال الاستمارة أوالبرقیة وغیرهاإلی مکتب البرید فی ید المرسل إلیه وعلی هذا الأساس جوز الإمام أشرف علی التهانوی-رحمه اللہ-إرسال المبالغ عن طریق الحوالة البریدیة."

(فقه البیوع،ج:2،ص:751)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404102064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں