بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کا حکم


سوال

 ہمارے علاقے کے کسی نجی اسکول میں ایک طالب علم نے جوکہ مسلمان تھا،جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخانہ الفاظ استعمال کیے،الفاظ یہ تھے کہ"  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے   اتنی ساری شادیاں کی ہیں،نعوذ باللہ اس کا مقصد صرف عورتوں کے ساتھ ٹائم پاس کرنا تھا"اور اس نے یہ الفاظ ایک مرتبہ ہی کہےتھے،جس کا اعتراف اس لڑکے نے خود کیا اور اب بھی کرتا ہے،اس گستاخانہ الفاظ پر اس کی کلاس میں پڑھنے والے 4 طالب علم بھی گواہ ہیں،  جس کی وجہ سے اسکول میں  ہنگامہ بھی ہوا، اسکول کے ذمہ دار نے ہنگامے کو روک کر مقامی علماءِ کرام سے رابطہ کیا تو علماء ِکرام نے گستاخی کرنے والے لڑکے کو بلا کر واقعہ کی تحقیق کی، لڑکے نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے واقعتا ایسے ہی کہا ہے، میں توبہ کرتا ہوں آئندہ ایسے نہیں کروں گا، پھر علماء کرام نے دوبارہ سے کلمہ بھی پڑھوایا، بعد میں پتہ چلا کہ شرعاً بطورِ حد اس کو سزا دی جائے گی جو حدمقرر ہے، اور سرکار کے ذمہ اس کی سزا ہے، تو علماء نے کہا کہ اگر سرکار کے حوالہ کیا جائے یا ایف آئی آر درج کرائی جائے، اس وجہ سے علماء نے سکوت اختیار کیا، لہذا آپ راہ نمائی فرمائیں کہ شرعاً   کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جن الفاظ میں ضروریاتِ دین میں سے کسی بات کا انکار یا اعتراض ہو یا صریح حکمِ الٰہی کو تبدیل کرکے بیان کیا جائے یا دین کے کسی بھی حکم یا بات کا استہزا و مذاق اڑایا جائے، اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات و صفات میں سے کسی کا انکار، اعتراض، استہزا یا استخفاف ہو، یا کسی نبی علیہ السلام کی توہین و گستاخی یا استخفاف ہو، وغیرہ اس قسم کے الفاظ کہنے سے (العیاذ باللہ) کفر ثابت ہوجاتاہے،پاکستان  کے قانون کےتحت گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا بطورِ حد قتل ہے،مسلمان اور کافر کی تفریق کے بغیر، اور اس جرم کے پائے جانے اور اقرار  یا  شرعی  گواہوں  کی  گواہی  سے یہ  ثابت ہو جانے کی صورت میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس سزا کا اطلاق کرے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جس طالبِ علم نےگستاخانہ الفاظ   استعمال کیےہیں جن الفاظ کا اعتراف اس نے خود کیا اور اس پر گواہ بھی موجود ہیں ،لیکن  قاضی یا حاکم کے پاس لے جانے اور وہاں جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی اس نے توبہ کرلی،تو یہ معاملہ یہیں ختم ہوجائے گا،اور اس سے حد ساقط ہوجائے گی،اس پر توبہ کرنے کے بعد حد جاری نہیں کی جائے گی۔

کتاب الخراج لأبي يوسف میں ہے:

"من سب رسول الله صلى الله عليه وسلم عياذا بالله.

قال أبو يوسف: وأيما رجل مسلم سب رسول الله صلى الله عليه وسلم أو كذبه أو عابه أو تنقصه؛ فقد كفر بالله وبانت منه زوجته؛ فإن تاب وإلا قتل. وكذلك المرأة؛ إلا أن أبا حنيفة قال: لا تقل المرأة وتجبر على الإسلام."

(فصل فی حکم المرتد عن الاسلام والزنادقۃ،ص:199،ط:المکتب الازہریۃ)

النتف في الفتاوى میں ہے:

"والسابع من سب رسول الله الله صلى الله عليه وسلم فإنه مرتد وحكمه حكم المرتد ويعفل به ما يفعل بالمرتد"

(كتاب المرتد والبغی،ساب الرسول،294/2،ط:مؤسسۃ الرسالۃ)

وفيہ ایضاً:

"واعلم أن الإنسان إذا كان مسلما فلا يحل قتله إلا عشرة أنفس: بعضهم بالاتفاق وبعضهم بالاختلاف، أحدهم المرتد فإن ارتد الرجل عن الإسلام استتابه الإمام فإن تاب وإلا قتل والأفضل أن يستتيبه ثلاثة أيام يكرر عليه التوبة فإن تاب قبل منه وإن أبى قتله بالاتفاق."

(كتاب المرتد والبغی،689/2،ط:مؤسسۃ الرسالۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(الحد) لغة المنع. وشرعا (عقوبة مقدرة وجبت حقا لله تعالى) زجرا، فلا تجوز الشفاعة فيه بعد الوصول للحاكم، وليس مطهرا عندنا بل المطهر التوبة.

قوله بعد الوصول للحاكم) وأما قبل الوصول إليه والثبوت عنده فتجوز الشفاعة عند الرافع له إلى الحاكم ليطلقه؛ لأن وجوب الحد قبل ذلك لم يثبت، فالوجوب لا يثبت بمجرد الفعل بل على الإمام عند الثبوت عنده كذا في الفتح.وظاهره جواز الشفاعة بعد الوصول للحاكم قبل الثبوت عنده، وبه صرح ط عن الحموي (قوله بل المطهر التوبة) فإذا حد ولم يتب يبقى عليه إثم المعصية. وذهب كثير من العلماء إلى أنه مطهر، وأوضح دليلنا في النهر.مطلب التوبة تسقط الحد قبل ثبوته (قوله وأجمعوا إلخ) الظاهر أن المراد أنها لا تسقط الحد الثابت عند الحاكم بعد الرفع إليه، أما قبله فيسقط الحد بالتوبة."

(کتاب الحدود،3/4،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100757

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں