ایک مکان کا سودا ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ میں ہوا جس میں ایک کروڑ کی رقم دے دی گئی اور بقایا قبضہ ملنے پر مشروط تھی، مگر بیچنے والے نے بغیر بقیہ رقم کی ادائیگی کے قبضہ دینے سے منع کردیا، کیوں کہ ڈاکومینٹ ملنے میں تاخیر ہورہی تھی جس پر یہ طے ہوا کہ اس مکان میں خریدار رہ لے اور کچھ کرایہ ماہانہ دیتا رہے، جب ڈاکومینٹ تیار ہوجائیں تو خریدار بقایا رقم دےکر فائل لے لے، آیا یہ درست ہے؟
واضح رہے کہ جب دو متعاقدین کے درمیان کسی چیز کی خرید و فروخت کا معاملہ باہمی رضامندی سے طے ہوجائے تو شرعاً خریدار کی ملکیت فروخت کی ہوئی چیز پر ثابت ہوجاتی ہے، البتہ فروخت کنندہ کو اس بات کا اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ کل رقم کے نہ مل جانے تک خریدار کو قبضہ نہ دے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مکان کا سودا ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ میں ہوگیا ہے، تو مذکورہ مکان خریدار کی ملکیت ہوچکا ہے، اور اپنے ہی مکان کو کرایہ پر لینا جائز نہیں ہے،اور فروخت کرنے والے کے لیے کرایہ لینا شرعاً ناجائز ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"أما تعريفه فمبادلة المال بالمال بالتراضي... وأما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع."
(كتاب البيوع، الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج: 3، ص: 2، ط: دارالفكر بيروت)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"للبائع حبس المبيع إلى قبض الثمن، ولو بقي منه درهم ولو المبيع شيئين بصفقة واحدة."
(كتاب البيوع، مطلب في حبس المبيع لقبض الثمن وفي هلاكه وما يكون قبضا، ج: 4، ص: 561، ط: دار الفكر بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144404100686
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن