بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا بغیر کسی شرعی عذر کے عدالت سے تنسیخ نکاح کرنے کاحکم


سوال

 میری شادی ہوئی چودہ ماہ ہوگئے ہیں اور میری بیوی ہنسی خوشی رہ رہی ہے،میں نے اس کا حق مہر 10تولے سونا ادا کیا تھا، وہ ناراض ہو کر میکے چلی گئی، میں نے بہت جرگے کیے لیکن وہ نہ آئی،معاملہ عدالت گیااس نے عدالت میں تنسیخ نکاح کا کیس کیاوہ مجھ سے طلاق مانگ رہی تھی اور میں نے انکار کیا، وہ مجھ سے خلع نہیں مانگتی تھی کیونکہ خلع میری رضامندی کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی،کیس چلا اور عدالت نے اسے تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کردی، میں نے اسے اور اس کے والدین کو کہا کہ یہ طلاق نہیں ہوئی لیکن وہ نہ مانے اور اس کی شادی دوسری جگہ کردی، براہ مہربانی مجھے شرعی  راہ نمائی فرمائیں کہ یہ طلاق ہوئی ہے یانہیں؟

وضاحت:میری بیوی کا دعویٰ تھا کہ میں اس سے نفرت کرتا ہوں اس لیے مجھے طلاق چاہیے ۔لیکن مجھے اس سے محبت ہےشوہر عدالت میں حاضر ہوا تھاعورت نے اپنے مدعا گواہوں سے ثابت نہیں کیا تھا۔

جواب

صورت مسئولہ میں عورت  کا محض اس بنیاد پر کہ شوہر مجھ سے نفرت کرتاہے عدالت میں تنسیخ نکاح کی درخواست کرناشرعاً درست نہیں ہے، اس دعوی کی بنیاد پر شرعاً تنسیخ نکاح نہیں ہوتاہے لہٰذا مذکورہ تنسیخ نکاح شرعاًمعتبر نہیں ہے، دونوں کا نکاح برقرار ہے ، عورت کا دوسری جگہ نکاح جائز نہیں ہے دوسری جگہ جو شادی کی اس سے علیحدہ ہونا ضروری ہے تاہم اگر لڑکی سائل کے ساتھ رہنے پر رضامندنہیں ہے اور نہ اس کے گھر والے یہ رشتہ برقرار رکھنے پر رضامند ہیں تو سائل بلاوجہ عورت کولٹکا کرنہ رکھے بلکہ اسے طلاق یاخلع دے کر آزاد کردے تاکہ وہ عدت مکمل کرکے دوسری جگہ نکاح کرسکے۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

(کتاب الطلاق فصل فی حکم الخلع ج3:ص229:ط الوحیدیہ پشاور)

مبسو ط سرخسی میں ہے:

"والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض."

(کتاب الطلاق باب الخلع  ج6:ص176:ط دار المعرفہ بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا. قال: فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة، ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لأنه زنى كما في القنية وغيرها اهـ."

(کتاب النکاح،مطلب في النكاح الفاسد،ج:3،ص:132 ط:سعید)

خیر الفتاوی میں ہے:

"جب تک شوہر اپنی زوجہ کے حقوق پوری طرح ادا کرنے پر قادر ہواور نان نفقہ کا بھی انتظام کرتاہواس وقت تک اس کی زوجہ کا نکاح قابل فسخ نہیں ہوتا، اگر جج اپنے کسی قانون کے تحت فسخ بھی کردے توبھی شریعت میں وہ فسخ متعبر نہیں ہوتابلکہ شریعت میں وہ قائم رہتاہے، اور شرعاًعورت کادوسری جگہ نکاح درست نہیں ہوتا۔"

(کتاب النکاح،باب فسخ النکاح،ج:6،ص:67،ط:مکتبہ امدادیہ ملتان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں