بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ والوں کا مدرس کو اپنی تنخواہ چندہ جمع کرکے لینے کی شرط پر رکھنے کا حکم


سوال

مدرسہ والوں کی طرف سے یہ شرط لگانا کہ مدرس کو اپنی تنخواہ چندہ کرکے  لینا پڑے گا، مدرسہ کی طرف سے ایک روپے بھی نہیں دیا جائے گا تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جس معاملہ کا ذکر ہے ،وہ اجارہ کا معاملہ ہے اور اس معاملہ کےدرست وصحیح ہونے کے لیے منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اجرت (تنخواہ) معلوم ہو، ورنہ عقدِ اجارہ فاسد ہوجاتا ہے، صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مدرس کی تنخواہ مجہول ہے، اس لیے یہ اجارہ فاسد ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ مدرس کو اپنی تنخواہ خود چندہ کر کے لینی پڑے گی، یہ شرط بھی درست نہیں ہے۔

المراسیل لابی داود میں ہے :

"حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن حماد، عن إبراهيم، عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «نهى عن ‌استئجار الأجير ولم يبين، يعني حتى يبين له أجره."

(باب التجارة ،في المفلس ص : 167 ،الرقم :181 ط : مؤسسة الرسالة ،بيروت)

المحیط البرہانی میں ہے :

"وأما بيان شرائطها فنقول يجب أن تكون ‌الأجرة معلومة، والعمل إن وردت الإجارة على العمل، والمنفعة إن وردت الإجارة على المنفعة، وهذا لأن ‌الأجرة معقود به والعمل أو المنفعة معقود عليه، وإعلام المعقود به وإعلام المعقود عليه شرط تحرزاً عن المنازعة كما في باب البيع، وإعلام المنفعة ببيان الوقت، وهو الأجل أو بيان المسافة."

(‌‌كتاب الإجارات،‌‌الفصل الأول: في بيان الألفاظ التي تنعقد بها الإجارةوفي بيان نوعها وشرائطها وحكمها  ج: 7 ص : 395 ط : دارالكتب العلمية)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے :

"قال - رحمه الله -: (الإجارة عقد على المنافع بعوض)...(قوله: ولا يصح حتى تكون المنافع ‌معلومة، والأجرة ‌معلومة) لأن الجهالة في المعقود عليه وبدله يفضي إلى المنازعة كجهالة الثمن، والمبيع."

(كتاب الإجارة،ج :1 ص : 259 ط : المطبعة الخيرية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومنها أن تكون ‌الأجرة ‌معلومة."

(كتاب الإجارة،الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها ج : 4 ص : 411 ط : رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403101234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں