بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ملازم کو ملنے والے فنڈ میں اس کی اولاد کا حصہ


سوال

ایک شخص سرکاری ملازم تھا ، اس نے 60 سال ملازمت کی ،اب وہ ریٹائر  ہوگئے اور اسے فنڈ ملا ،اس کی 5 بیٹیاں ہیں اور وہ شادی شدہ ہے ، کیا  اس فنڈ میں بیٹیوں کا حساب ہے ؟اور اگر ہے تو کس حساب سے ؟ یا اگر والد اپنی مرضی سے کچھ دیتا ہے تو ٹھیک ہے؟

جواب

عموما  سرکاری اداروں میں ملازم کو ریٹائر منٹ کے بعدجی پی فنڈ، پراویڈنٹ فند کے نام سے  رقم ملتی ہے ، اس فنڈ میں شمولیت کے لیے  ملازمین اپنی تنخواہ میں سے کچھ فیصد کٹوتی کرواتے ہیں جو کہ ہر ماہ اس فنڈ میں جمع کرلی جاتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے وقت ادارہ  جمع شدہ رقم اضافہ کے ساتھ ملازم کو دے دیتا ہے،اس اضافہ میں ایک تو وہ رقم ہوتی ہے جو ادارہ اپنی طرف سے ملاتا ہے اور دوسرا اضافہ وہ ہوتاہے تو جو ادارہ کو کٹوتی شدہ رقم کوکسی جگہ جمع کرانے پر ملتا ہے ،تو ملازم کی تنخواہ سے رقم کی کٹوتی کی    دو صورتیں ہیں: (1) اختیاری (2) جبری۔

1۔اگر جی پی فنڈ کا جمع کرنا ملازم کے اختیار میں ہو اور ملازم اپنے اختیار سے کٹوتی کروائے اور اس رقم پر اضافہ مل جائے کمپنی یا ادارہ کی طرف سے کہ ہم اس کو ڈبل کرکے واپس کریں یا چالیس فیصد زیادہ کرکے دیں یا انشورنس میں ڈال کر اس پر اضافہ دیں گے تو اس اختیاری جی پی فنڈ کا حکم یہ ہے کہ اصل رقم حلال ہے، اصل رقم کے علاوہ کمپنی  اپنی طرف سے جو رقم شامل کررہی ہے اس کا لینا بھی جائز ہے۔ لیکن  اصل اور کمپنی کی طرف سے شامل کردہ رقم کو کمپنی یا ادارہ، انشورنس کمپنی یا بینک میں جمع کرے تو اس انشورنس یا سود والی اضافی رقم کا حکم یہ ہے کہ  چوں کہ یہ جی پی فنڈ اختیاری ہے، اس صورت میں کمپنی یا ادارہ ملازم کے لیے وکیل بن جائے گا،  اور وکیل کا قبضہ موکل کا قبضہ ہوتاہے، لہٰذا بیمہ کمپنی یا بینک میں رقم منتقل ہونے کے بعد ملازم اس رقم کا مالک بن جائے گا، اب اس رقم پر جو اضافہ کے ملے گا وہ شرعاً سود ہی ہے، اس کا استعمال ملازم کے لیے ناجائز ہے۔

2۔اگر جی پی فنڈ کا جمع کرنا آدمی کے اختیار میں نہ ہو اور کمپنی یا ادارہ جی پی فنڈ کی مد میں پیسے کاٹے اور اصل پیسے کے بجائے دوگنے پیسے دے یا اس سے زیادہ دے تو یہ  اصل بھی  رقم حلال ہے اور اس پر مکمل اضافہ بھی حلال ہے ،اضافہ سود کے زمرے میں نہیں آتا، اس میں ملازم کا عمل دخل بھی نہیں ہے لہذا یہ ملازم کے لیے عطیہ کی طرح ہے، اس کا لینا ملازم کے لیے جائز ہے۔

لہذا صورت مسئولہ  میں  مذکورہ سرکاری ملازم کو جو فنڈ ملے ہیں اگر یہ فنڈ   (درج بالا تفصیل کے مطابق) اس کے لیے لینا  شرعا  درست ہو تو  یہ  اسی شخص کی ملکیت ہوں گے ،اس پر اس کی اولاد یا کسی اور  کا کوئی حق یا حصہ نہیں ہے ،ہاں البتہ اگر مذکورہ شخص اپنی خوشی  سے اپنی زندگی میں  اپنی اولاد کو کچھ ہدیہ  (گفٹ )دینا چاہے تو دے سکتا ہے ،اس کا طریقہ یہ ہے کہ  مذکورہ شخص     اپنی ضرورت کے لیے جتنا  مال رکھنا چاہیں   رکھ لے  اور اگر بیوی زندہ ہے تو اسے کل مال کے آٹھویں حصہ کے بقدر دیدے ،ا س کے بعد  اپنی  باقی جائیداد  اپنے بچوں میں برابری کے ساتھ تقسیم کردیں  ،یعنی جتنا ایک بیٹے کو دیں  اتنا ہی ایک بیٹی کو دیں  ،بلا وجہ  بہت زیادہ کمی پیشی کرنا  یا کسی کو بالکل  محروم کرنا جائز نہیں، والدین کو   زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہدیہ وغیرہ دینے میں برابری کرنا ضروری ہے  ،چنانچہ حدیث شریف میں ہے :

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»".

(مشکاة المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان بن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

البتہ  کسی بیٹے یا بیٹی کو کسی معقول وجہ کی بناء پر بنسبت اوروں کے کچھ زیادہ دے سکتی ہیں ، یعنی کسی کو شرافت ، دینداری،خدمت گذاری یا غریب ہونے کی بناء پر  بنسبت اوروں کے کچھ زیادہ دے سکتے  ہیں ۔نیز   جو کچھ جس کو دیا جائے اس میں  اس کا حصہ الگ کرکے مالکانہ قبضہ کے ساتھ دینا ضروری ہے ،محض نام کردینا ملکیت کیلیے کافی نہ ہوگا ۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها".

 (البحر الرائق ج: 7، ص: 300، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"مطلب: كل قرض جر نفعًا حرام

(قوله:كل قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا، كما علم مما نقله عن البحر".

 (رد المحتار ج: 5، ص: 166، ط: سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فضل خال عن عوض بمعيار شرعي وهو الكيل والوزن فليس الذرع والعد بربًا مشروط ذلك الفضل لأحد المتعاقدين في المعاوضة".

(الدر المختار ج:5، ص: 128/ 129، ط: سعيد)

جواہر الفقہ میں ہے:

’’جبری  پراویڈنٹ فنڈ  پر جو سود کے نام پر رقم ملتی ہے ،وہ شرعا سود نہیں  بلکہ اجرت (تنخواہ ) ہی کا ایک حصہ ہے اس کا لینا اور اپنے استعمال  میں لانا جائز ہے ،البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا بھی ہے  اور ذریعہ سود بنالینے کا خطرہ بھی، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے‘‘۔ 

(پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰۃ اور سود کا مسئلہ: 3/258، ط: دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100806

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں