بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹرٹل منٹ پرو turtle mint Pro سے متعلق


سوال

 ایک ایپلیکیشن جس کا نام  ٹرٹل منٹ پرو turtle mint Pro ہے،اس موبائل ایپ سےکار ،بائک،لائف اور ہیلتھ انشورنس کیا جا سکتا ہے، اس ایپ میں ایک ہفتے میں تین دن تک سوال جواب کا مقابلہ ہوتا ہے ،جس میں چھ سوال ہوتے ہیں اور جو اُن سوالوں کا صحیح جواب دیتا ہے، اُسے بطور انعام کچھ پیسے ۵۰ روپے سے ۲۰۰ روپے تک دیے جاتے ہیں جو ایک مہینہ بعد اکاؤنٹ میں آ جاتے ہیں ،تو کیا یہ پیسے جائز ہیں  اور اگر جائز نہیں ہیں  تو اب تک اس ایپ سے جو پیسے ملے ہیں ان کا مجھے کیا کرنا چاہئے؟ میں اسے 3مہنیوں سے چلا رہا ہوں اور میں نے اس ایپ کے بارے میں کئی لوگوں کو بتایا بھی ہے، وہ بھی اسی طرح پیسے کما رہے ہیں، اگر یہ جائز نہیں تو کیا مجھے اور لوگوں  کو جو میں  نے بتایا ہے، اسکا گناہ ملے گا ،ایسی حالت میں مجھے کیا کرنا چاہیے ؟

جواب

واضح رہے کہ  مذکورہ کمپنی بنیادی طور پر ایک انشورنس کمپنی ہے جیسا کہ سائل نے سوال میں ذکر کیا ہے اور مروجہ انشورنس  کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بھی  بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے،  دونوں میں صرف شکل وصورت کا فرق ہے،نیز انشورنس کے اندر  "سود" کے  ساتھ " جوا" بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآن کریم اور احادیث ِمبارکہ سے ثابت ہے،اس لیے مذکورہ کمپنی سے کسی قسم کی انشورنس پالیسی لینا شرعا جائز نہیں ہے ۔

باقی رہی یہ بات  مذکورہ ایپ  میں سوال جواب کے مقابلہ میں حصہ لینا اور صحیح جواب دینا پر  بطور انعام پیسے وصول کرنا ،تو اس کے لیے چند باتوں کی وضاحت مطلوب ہے:

۱۔اس سوال و جواب کے مقابلہ میں حصہ لینے کے لیے کیا شرائط ہیں اور اس کا مکمل طریقہ کار کیا ہے ؟نیز یہ واضح کریں کہ سوال و جواب کے اس مقابلہ میں شرکت کے لیے کوئی  رجسٹریشن فیس وغیرہ  وصول کی جاتی ہے یا نہیں ؟اگر نہیں لی جاتی تو انعام کی رقم کا انتظام کیسے کیا جاتا ہے ؟

۲۔سوال و جواب کے مقابلہ میں حصہ لینے سے پہلے کسی قسم کی انشورنس پالیسی لینا ضروری ہے یا نہیں ؟

    قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾[المائدة: 90]

صحیح مسلم  میں ہے:

"حدثنا محمد بن الصباح، وزهير بن حرب، وعثمان بن أبي شيبة، قالوا: حدثنا هشيم، أخبرنا أبو الزبير، عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ‌ومؤكله، ‌وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»."

(کتاب المساقاۃ،باب لعن آکل الربا ومؤکلہ۔3/1219۔دار احیاء الکتب العربیہ)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"حدثنا أبو بكر قال: حدثنا ابن أبي زائدة، عن عاصم، عن ابن سيرين، قال: «كل شيء ‌فيه ‌قمار فهو من الميسر»."

(كتاب البيوع و الأقضية/4/420۔مکتبۃ الرشد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وسمي القمار قمارًا؛ لأنّ كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، و يجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(کتاب الحظر و الإباحة، فصل في البیع، 6/403۔سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100126

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں