بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عدالتی خلع


سوال

 میری بچی کی شادی چار سال قبل بدقسمتی سے ایک چرسی شخص کے ساتھ ہوئی ، جس کے بارے میں مجھے معلوم نہیں تھا ، صرف یہ معلوم تھا کہ وہ عام سگریٹ پیتا ہے، بعد میں بچی نے بتایا کہ وہ نشہ کرتا ہے اور اس کو مارتا اور زدوکوب کرتا ہے، ہم نے صلح صفائی اور اصلا ح کی کوشش کی ،لیکن اس کی حالت نہیں بدلی ،وہ نشے کی حالت میں بچی کو مارتا اس کا گلا دباتا ،اس نے کئی مرتبہ اسے طلاق دی، جب ہمیں معلوم ہوا تو اس نے صرف دو طلاقوں کو تسلیم کیا اور رجوع کرلینے کا دعوی کیا،اس کی تحریری یادداشت اس سے لے لی تھی۔

اس میں مردانہ کمزوری بھی تھی اور اس کا باقاعدہ میڈیکل ٹیسٹ بھی کرایا، جس سے یہ ثابت ہوا کہ اس میں سپرم کم ہیں، وہ مباشرت بھی صحیح طور پر نہیں کر سکتا تھا اور جریان کی بیماری کا بھی مسئلہ تھا ، علاج بھی کروایا کچھ نہیں ہوا، ہم نے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔ 

کچھ عرصہ قبل (ماہ ستمبر 2021)و ہ بغیر بتائے گھر چھوڑ کر چلاگیا، اس کو بے شمار فون کیے ،دیگر افراد کے ذریعے رابطہ کروانے  کی کوشش کی گئی، لیکن اس نے فون نہ اٹھا یا، اس کےخلاف تھانے میں رپورٹ بھی درج کروائی  گئی، لیکن اس کا کچھ پتہ نہ چلا، اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے بچی اس کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتی تھی۔

مجبوراً کورٹ میں خلع کے لیےدرخواست دی ،فیملی کورٹ نے اس کو متعدد بار سمن بھیجا ،لیکن وہ حاضر نہ ہوا، اس لیےکورٹ نے بچی کے حق میں ڈگری دے دی ،سرکاری قواعد کے مطابق ثالثی کونسل کو بھی درخواست دی ،جس نے  اسے نوٹس بھیجا، لیکن وہ نہیں آیا،اخبار میں اشتہار بھی دیا گیا،فون پر بھی رابطہ کیا، لیکن اس سے کوئی جواب موصول نہ ہوا، 3ماہ بعد ثالثی کونسل نے خلع کا سرٹیفیکٹ جاری کردیا، حق مہر ایک لاکھ روپے نکاح کے وقت مقرر ہوا تھا ،بیٹی کو اس نے وہ بھی ادا نہیں کیا۔

اس شخص کی وجہ سے میری بچی بہت اذیت ناک زندگی گزار رہی ہے، ملکی قوانین کے مطابق ہم نے  اپنی بساط بھر کوشش کی ہے،لیکن شریعت مطہر ہ کے مطابق اس سے نجات کی کیا صورت ہے؟ جب کہ وہ شخص نہ تو عدالت میں پیش ہورہا ہے ،نہ ثالثی کونسل میں اور نہ ہی وہ کسی رابطے میں ہے، لہذا درج بالا حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئےاس بارے میں فتوی عنایت کیا جائے کہ:

1۔ کیا میر ی بچی کا خلع واقع ہوچکا ہے؟

2۔کیا میر ی بچی دوسرانکاح کرسکتی ہے تاکہ وہ اپنی باقی زندگی سکون سے گزار سکے؟

جواب

صورت  ِمسؤلہ میں   مذکورہ عدالتی فیصلہ کو شرعا خلع نہیں قرار دیا جاسکتا ،اس لیے کہ خلع کےشرعا  صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ شوہر اس خلع کو قبول کرے ،جبکہ مذکورہ صورت میں شوہر کے طرف سے خلع کو قبول نہیں کیا گیا ،نیز  اس  فیصلہ کو شرعا تنسیخ نکاح بھی قرار نہیں دیا جاسکتا   ،اس لیے کہ تنسیخ نکاح کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ عورت شوہر کے ظلم اور نان نفقہ نہ دینےوغیرہ  کی بنیاد پر تنسیخ نکاح کا مقدمہ  دائر کرے ،اور اپنی بات کو شرعی شہادات (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی )سے ثابت کرکے نکاح فسخ کرائے،جب کہ مذکورہ مقدمہ یہ بات موجود نہیں ہے  کہ عورت نے گواہوں سے اپنی شکایات وغیرہ ثابت کی ہوں ،اس لیے شرعا اس فیصلہ کو تنسیخ نکاح بھی قرار نہیں دیاجاسکتا ،اس لیے شرعا نکاح برقرار ہے ۔(ماخوز از حیلہ ناجزہ،زوجہ متعنت ،ص: ۷۳ ،۷۴ ط:دار الاشاعت)

البتہ اگر شوہر  عدالتی فیصلہ کو قبول کرتے ہوئے اس پر دستخط کرتا ہو تو پھر شرعا بھی خلع واقع ہوکر نکاح ٹوٹ جائےگا ،عورت اپنی عدت پوری کرکے دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی ۔

وفي بدائع الصنائع :

"وأما ركنه فهو الايجاب والقبول لانه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول."

(4/ 430ط:رشيدية)

وفي المبسوط للسرخسي:

" فيحتمل الفسخ بالتراضي أيضا، وذلك بالخلع، واعتبر هذه المعاوضة المحتملة للفسخ بالبيع والشراء في جواز فسخها بالتراضي."

(6/ 171ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144310101459

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں