بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دو لڑکیوں کا آپس میں جنسی تعلق قائم کرنا اور منع کرنے پر اپنی جان کو نقصان پہنچانا


سوال

ایک لڑکی دوسری لڑکی کو بار بار منع کرتی ہے،   مگر وہ باز نہ آۓ اس کے ساتھ بدفعلی کرنے سے اور اگر وہ سامنے  والی منع کرے تو اپنی جان کا نقصان کرے ایسے میں کیا کیا جاۓ، غیر شادی شدہ ہیں دونوں؟

جواب

اسلام میں جنسی تقاضے پورے کرنے کے لئے نکاح کی مشروعیت ہے، اور اس کے علاوہ باقی تمام طریقوں پر پابندی لگا کر ان کو جنسی بے راہ روی قرار دیا گیا ہے،جنسی بے راہ روی کی ایک خطرناک اور قبیح شکل ہم جنس پرستی ہے جس میں عورت عورت کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرکے  لذت حاصل کرتی ہے،  اسلا م نے اس کو زناقرار دے کر حرام کردیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

"أخبرنا أبو الحسين، ثنا الحسين، ثنا عبد الله، حدثني عمار بن نصر المروزي، ثنا عثمان بن عبد الرحمن يعني الحراني، عن عنبسة، عن العلاء بن مكحول، عن واثلة بن الأسقع رفعه قال: " سحاق النساء زنا بينهن."

(شعب الایمان للبیهقی ، جلد ۷ ص : ۳۲۶ ط : مکتبة الرشد للنشر و التوزیع بالریاض بالتعاون مع الدار السلفیة ببومباي الهند)

ترجمہ:"عورتوں کا (شہوت کے مارے) آپس میں ایک دوسرے کو بھینچنا ان کا آپس کا زنا ہے۔"

اسی طرح ایک اور روایت میں عورتوں کو ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہونے سے بھی منع کیا ہے۔

" وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ‌تباشر المرأة المرأة فتنعتها لزوجها كأنه ينظر إليها."

(مشکوۃ المصابیح ، کتا ب النکاح ، باب النظر الی المخطوبة و بیان العورات جلد ۲ ص : ۹۳۱ ط : المکتب الاسلامي ۔بیروت)

ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی عورت اپنا برہنہ جسم  کسی دوسری عورت کے برہنہ جسم سے نہ لگائے  اور نہ  اس عورت کے جسم کا حال اپنے خاوند کے سامنے بیان کرے (کیونکہ اپنے خاوند کے سامنے کسی اجنبی عورت کے جسم کا حال بیان کرنا ایسا ہی ہے)جیسا کہ اس کا خاوند اس عورت کے جسم کو خود دیکھ رہا ہو۔(مظاہر حق)

لہذا مذکورہ احادیث سے ثابت ہوا کہ اسلام میں عورت کا عورت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنا حرام ہے لہذا اس عمل پر توبہ   و استغفار لازم ہے  ۔باقی ان لڑکیوں کا اپنی جان کو نقصان پہنچانا تو  اس کا حکم یہ ہے کہ  ہر انسان کی روح اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے پاس امانت ہوتی ہے  جس میں خیانت کرنے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہوتا،اس وجہ سے خودکشی کرنا (یعنی اپنے آپ کو خود ہی مارنا) اللہ تعالیٰ کی امانت میں خیانت کرنے  کی وجہ  سے اسلام میں حرام ہے اور  یہ ایک گناہ کبیرہ (بڑا  گناہ) ہے،  تاہم اگر کوئی شخص خودکشی کو حلال اور جائز  سمجھ کر  نہ کرے، بلکہ مصائب اور پریشانیوں کی وجہ  سے خودکشی کرلے تو وہ دائرهٔ اسلام سے خارج نہیں ہوگا، اور جس طرح دوسرے گناہ گار مسلمان اپنی سزا مکمل کرکے اللہ کے فضل وکرم اور اس کی رحمت سے جنت میں جائیں گے، اسی طرح خودکشی کرنے والے  کا بھی یہی حکم ہوگا۔

  خودکشی کرنے والے کی سزا کے  بارے میں مذکور ہےكہ ایسے شخص کو اسى طرح كى سزا دى جائےگى جس طرح اس نے اپنے آپ كو قتل كيا ہو گا، جیسے کہ حدیث شریف میں خود کشی کی مختلف صورتوں کو ذکر کرتے ہوئے مذکور  ہے:

"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ  نے فرمايا: جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پي كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پيتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا۔"

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مذکورہ دونوں لڑکیوں کے یہ افعال کبیرہ گناہوں میں سے ہیں اس لیے ان سے اجتناب ٖضروری ہے اور توبہ استغفار لازم ہےان کو بار بار ترغیب دی جائے اور  سمجھایا جائے تاکہ وہ اپنے اس قبیح فعل سے باز آجائیں اور جلد از جلد شادی کا انتظام کرلے تاکہ اس لڑکی سے نجات مل جائے یا ماں باپ میں سے کسی کو بتا دے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من تردى من جبل فقتل نفسه ; فهو في نار جهنم يتردى فيها خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن تحسى سما فقتل نفسه ; فسمه في يده يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا، ومن قتل نفسه بحديدة، فحديدته في يده يتوجأ بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها أبدا» ". متفق عليه.

قال الطيبي رحمه الله: والظاهر أن المراد من هؤلاء الذين فعلوا ذلك مستحلين له وإن أريد منه العموم، فالمراد من الخلود والتأبيد المكث الطويل المشترك بين دوام الانقطاع له، واستمرار مديد ينقطع بعد حين بعيد لاستعمالهما في المعنيين، فيقال: وقف وقفا مخلدا مخلدا مؤبدا، وأدخل فلان حبس الأبد، والاشتراك والمجاز خلاف الأصل فيجب جعلهما للقدر المشترك بينهما للتوفيق بينه وبين ما ذكرنا من الدلائل".

(کتاب القصاص جلد ۶ ص : ۲۲۶۲ ط : دارالفکر، بیروت ۔ لبنان)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308102213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں