بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمتِ انسان سے متعلق قرآنی وحدیثی احکام


سوال

حرمتِ انسان سے متعلّق حکمِ شرعی کیا ہے؟علماء کرام اس بارے میں راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

از رُوئے شرع انسان کا احترام اور ان کے تمام حقوق کی پاسداری کا حکم ہے، بلااجازت کسی بھی انسان کے حقوق پامال کرنااور کسی بھی طرح ان کی بے احترامی کرنا حرام ہے، تکریمِ انسانی سے متعلّق ربِّ باری کا فرمان ہے:

"وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آَدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا."

ترجمہ:"اور ہم نے آدم علیہ السلام کی اولاد کو عزت دی  اور ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سوار کیا اور نفیس نفیس چیزیں ان کو عطا فرمائیں اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی۔"

(سورۃ الاسراء، رقم الآیۃ:70، ترجمہ:بیان القرآن للتھانویؒ)

اسلام میں کسی انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ربِّ باری  نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیاہے، جیسے کہ سورۃ المائدۃ میں ہے:

"مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُون."

ترجمہ:"  اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی شخص کو بلامعاوضہ دوسرے شخص کے یا بدون کسی فساد کے (جو) زمین میں (اس سے پھیلا ہو) قتل کرڈالے تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو قتل کرڈالا اور جو شخص کسی شخص کو بچالیوے تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو بچالیا اور ان (بنی اسرائیل) کے پاس ہمارے بہت سے پیغمبر (بھی) دلائل واضحہ لے کر آئے پھر اس کے بعد بھی بہتیرے ان میں سے دنیا میں زیادتی کرنے والے ہی رہے۔"

(سورۃ المائدۃ، رقم الآیۃ:32، ترجمہ: بیان القرآن)

  حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے، جیسے کہ حدیث شریف میں مروی ہے:

"عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ، وَيَقُولُ: مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُوْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ حُرْمَةً ".

(سنن ابن ماجه، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله، رقم الحدیث:3932، ج: 2، ص: 1297، ط:داراحیاء التراث العربی)

ترجمہ:" حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: اے کعبہ! تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہیے۔"

اسی طرح کامل مسلمان اسی کو قرار دیا گیا ہے، جس کے کسی بھی طرح کے قولا یا فعلا شر سے دوسرے لوگ محفوظ ہو، جیسے کہ حدیث شریف میں مروی ہے:

"عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه» هذا لفظ البخاري ولمسلم قال: " إن رجلا سأل النبي صلى الله عليه وسلم: أي المسلمين خير؟ قال: من سلم المسلمون من لسانه ويده. "

(مشکوۃ المصابیح، كتاب الإيمان، الفصل الأول، رقم الحدیث:6، ج:1، ص:8، ط:دار الکتاب الإسلامي)

ترجمہ:" اور حضرت عبداللہ بن عمرو  راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذا) سے مسلمان محفوظ رہیں اور اصل مہاجر وہ ہے جس نے ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیا جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے "۔ یہ الفاظ صحیح البخاری کے ہیں اور مسلم نے اس روایت کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ مسلمانوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ ( کے ضرر) سے مسلمان محفوظ رہیں۔ "

اسی بناء پر حدیث شریف میں انسان کی بے حرمتی کو سخت گناہ قرار دیا گیا ہے، جیسے کہ مروی ہے:

"عن عبد الله، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: سباب المسلم فسوق، وقتاله كفر."

(سنن نسائی، قتال المسلم، رقم الحدیث:4109، ج:7، ص:122، ط:ا لمکتبة المطبوعات الإسلامية)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  کسی مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔"

انسان کی حرمت اور تکریم کی بناء پر اسلام انسان كے ہر پوشیدہ اعمال کو راز میں رکھنے کی تلقین کرتا ہے، راز کی باتوں کو افشا کرنے اور پھیلانے کی سخت مذمت وارد ہوئی ہے، جو دوسروں کے راز کی حفاظت کرتا ہے اس کے لئے بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے ، جیسے کہ مروی ہے:

 "وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من نفس عن مؤمن كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة ومن يسر على معسر يسر الله عليه في الدنيا والآخرة. ومن ستر مسلما ستره الله في الدنيا والآخرة والله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه ومن سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله له به طريقا إلى الجنة وما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم إلا نزلت عليهم السكينة وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملائكة وذكرهم الله فيمن عنده ومن بطأ به عمله لم يسرع به نسبه» ." رواه مسلم 

(مشکوۃ المصابیح، کتاب العلم، الفصل الأول، رقم الحدیث:204، ج:1، ص:71، ط:دار الکتاب الإسلامي)

ترجمہ: "اور حضر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جو آدمی دنیا کی سختیوں میں سے کسی مسلمان کی کوئی سختی اور تنگی دور کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن وہاں کی سختیاں اس سے دور کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندوں کی مدد کرتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی مسلمان کی مدد کرتا رہتا ہے اور جو آدمی علم کی تلاش میں کسی راستہ پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کے راستہ کو آسان کردیتا ہے اور جب کوئی جماعت اللہ کے گھر (مسجد یا مدرسہ) میں قرآن پڑھتی پڑھاتی ہے تو اس پر (اللہ کی جانب سے) تسکین نازل ہوتی ہے۔ رحمت الٰہی اس کو اپنے اندر چھپا لیتی ہے اور فرشتے اس کو گھیر لیتے ہیں، نیز اللہ تعالیٰ اس جماعت کا ذکر ان (فرشتوں) میں کرتا ہے جو اس کے پاس رہتے ہیں اور جس نے عمل میں تاخیر کی آخرت میں اس کا نسب کام نہیں آئے گا۔"

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308101626

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں