بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قاضی کا عورت کے سامنے ایجاب و قبول کرنا اور مرد سے نہ کرنے کا حکم


سوال

ایک شخض نے نکاح پڑھایا، عورت سے توایجاب قبول کرایاگیا،پھرشوہرسےحق مھر چھ ہزار وصول کر کے عورت کو دیا گیا ،لیکن مردسےایجاب نہیں کرایاگیا،پھردعاخیر،مٹھائی تقسیم اور  رخصتی بھی ہو گئی، اب نکاح خواں کہتا ہے  کہ میں مرد سے قبول کرانا بھول گیا ،اب میاں بھی خوش ہیں ،لیکن نکاح منعقد ہوا کہ نہیں ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر  قاضی نے کوئی بھی ایسا جملہ کہا ہو جس سے  دولہا کی طرف سے ایجاب ہوا ہو مثلاً یہ کہ" میں فلاں کا نکاح آپ سے کرتا ہوں کیا آپ نے قبول کیا" اور دلہن نے کہا کہ" میں نے قبول کیا" ،پھر اگر دولہا اسی مجلس میں موجود تھا یا موجود نہیں تھا  لیکن معلوم ہونے پر اس نے رضامندی کا اظہار کردیا چاہے قول سے ہو یا فعل  سے یعنی  مہرادا کر کے   تو ایسی صورت میں نکاح ہو گیا ہے ۔اگر اس کے علاوہ کوئی اور صورت ہو تو وہ تفصیل  بتا کر معلوم کر لیں ۔

الدر المختار میں ہے:

"الأصل أن الآمر متى حضر جعل مباشرا."

(در مختارمع الرد ،کتاب النکاح ،ج:3،ص:25،ط:سعید )

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"وتثبت الإجازة لنكاح الفضولي بالقول والفعل، كذا في البحر الرائق رجل زوج رجلا امرأة بغير إذنه فبلغه الخبر فقال: نعم ما صنعت، أو بارك الله لنا فيها، أو قال: أحسنت، أو أصبت؛ كان إجازة، كذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار اختاره الشيخ أبو الليث، كذا في المحيط وإذا علم أنه أراد به الاستهزاء بسوق الكلام على وجه الاستهزاء فحينئذ لا يكون إجازة ولو هنأه القوم فقبل التهنئة كان إجازة هكذا في فتاوى قاضي خان وفي الحجة قال الفقيه: وبه نأخذ، كذا في التتارخانية."

(کتاب النکاح ،باب فی الوکالۃ بالنکاح ،ج:1،ص:299،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101056

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں