بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سعودی عرب میں بننے والے نئے شہر نیوم میں الیکٹرون کا کام کرنا


سوال

 سعودی عرب میں جو نیا شہر "نيوم" بن رہا ہے، اس میں الیکٹرون کا کام کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی کاروبار خودحلال ہو  اور   اس  کاروبار کے کرنے میں جائز  ذرائع استعمال کیے گئے ہوں اور اس میں شرعی اعتبار سے کوئی اور خرابی بھی نہ ہوں  تو ایسا کاروبار کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل جو الیکٹرون کا کاروبار کرناچاہتا ہے  اگر وہ  کاروبار حلال  ہے، جائز ذرائع پر مشتمل ہےاور اس میں شرعی اعتبار سے کوئی اور خرابی  بھی نہیں ہے تو ایسی صورت میں مذکورہ   کاروبار کرنے میں فی نفسہ  کوئی حرج نہیں ہے۔تاہم سعودی عرب میں بننے والےمذکورہ شہر  "نیوم" میں چوں کہ فحاشی اور عریانی کا گناہ  اور مغربیت کا غلبہ  ہوگا ،اس لئے    اگر سائل کا وہاں کاروبار کرنا ان کی  فحاشی وعریانی  وغیرہ کی ترویج میں معاون ہوگا تو ایسی صورت میں وہاں کاروبار کرنا گناہ کے کام میں تعاون  کی وجہ سے  شرعاً ناجائز ہے، اور اگر ان کی فحاشی وعریانی وغیرہ کی ترویج میں معاون نہ   ہو تو ایسی صورت میں مذکورہ کاروبار کرنا مکروہ نہیں ہوگا۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"وَلَا ‌تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡإِثۡمِ وَٱلۡعُدۡوٰن."

(سورة المائدة:2)

تفسیر ابنِ کثیر میں ہے:

"وقوله تعالى: وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى وينهاهم ‌عن ‌التناصر على الباطل والتعاون على المآثم والمحارم" .

(تفسیر ابنِ کثیر،سورۃ المائدۃ،ج:۳،ص:۱۰،ط:دار الکتب العلمیۃ)

التفسیرات الاحمدیۃ میں ہے:

           "هو عامٌ لكلِّ بِرٍّ وتقوى وإثمٍ وعُدْوانٍ، هكذا قال المفسّرون" .

(التفسیرات الاحمدیۃ،ص:۳۳۱،ط:حقانیۃ)

شرح البخاری للقسطلانی میں ہے:

"وعند أبي يعلى من حديث ابن مسعود مرفوعًا: من كثر سواد قوم فهو منهم ومن رضي عمل قوم كان شريك من عمل به فمن جالس أهل الفسق مثلاً كارهًا لهم ولعملهم ولم يستطع مفارقتهم خوفًا على نفسه أو لعذر منعه فيرجى له النجاة من إثم ذلك بذلك".

(شرح  البخاری للقسطلانی ،کتاب الفتن،باب من کرہ  ان یکثر سواد الفتن والظلم،ج:۱۰،ص:۱۸۵،ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ)

شرح البخاری لابن بطال میں ہے:

"قال المهلب: وفى حديث عائشة أن من كثر سواد قوم فى معصية أو فتنة أن العقوبة تلزمه معهم إذا لم يكونوا مغلوبين على ذلك؛ لأن الخسف لما أخذ السوقة عقوبة لهم شمل الجميع".

(شرح البخاری لابن بطال،ج:۶،ص:۲۵۰،ط:مکتبۃ الرشد۔الریاض)

فقظ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100508

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں