بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ثبوتِ جرح وتعدیل کے طریقے اور جارح ومعدّل کی شرائط واوصاف


سوال

۱- ثبوتِ عدالت و ثبوت ِضبط كے لیے جمہور علماء كے بیان  کیے گئے طرق ذكر كریں۔

۲-  جارح و معدل كے لیے محدثین نے جو شرائط و صفات ذكر كی ہیں ، ان  کی وضاحت درکار ہے۔ 

جواب

۱- کسی راوی کی عدالت کے ثبوت میں کچھ امورجمہور محدثین کے نزدیک متفقہ ہیں،جب کہ کچھ امور میں بعض محدثین اور فقہاءمتفرد ہیں ۔

دو طریقوں سے عدالت کا ثبوت متفق علیہ ہے۔

(۱)  شہرت،و امامت: یعنی کوئی راوی علم اور دیانت داری میں اتنا مشہور ہو جائے کہ اس کی امامت و ثقاہت پر عام و خاص سب متفق ہو جائیں، جیسے ائمہ اربعہ، شعبہ ،سفیان ثوری اور ابن عیینہ، یحیی بن معین اور ابن مدینی وغیرہ۔ 

(۲)  کسی راوی کی عدالت پر كم از كم ايك يا   دو ائمۂ  جرح و تعدیل صراحتاًگواہی دے دیں۔

(الكفاية في علم الرواية، باب في أن المحدث المشهور بالعدالة والثقة والأمانة لا يحتاج إلى تزكية المعدل، ص:86، المكتبة العلمية، ومقدمةابن الصلاح، "معرفة من تقبل رواته، ومن ترد روايته "، ص: 213، 220، دار الکتب العلمیةبيروت، ط:2)

توثیقِ ضمنی اور تعدیل ِضمنی:

جب کہ بعض محدثین اور فقہاء نے  عدالت کو ثابت کرنے کے لیے کچھ اور امور کا بھی ذکر کیا ہے، جیسے:

(۱)  کوئی شخص روایت کرنے میں معروف ہو جائے، لیکن استفاضہ اور شہرت کی حد تک نہ ہو۔

(۲) کسی سے روایت کرنے والے کثیر تعداد میں ہوں ۔ 

(۳)عادل قاضی کاکسی کی شہادت قبول کرنا۔

(۴)  کسی عادل آدمی کا کسی سے روایت لینا اس کی عدالت کی دلیل ہے، بشرطیکہ وہ عادل ہی سے روایت کرنے میں مشہور ہو۔

(۵) فقیہ کا کسی راوی کی روایت کے مطابق فتوی دینا۔

(۶) فقیہ کا کسی راوی کی روایت پر عمل کرنا اس کی عدالت کوثابت کرتاہے ۔ 

لیکن  یہ آراء یا تو ایک دو محدثین کی ہیں ،یا ایک خاص طبقہ کی جن سے بوقتِ ضرورت استفادہ کیا جاتاہے ، جمہور کے نزدیک انہیں توثیقِ ضمنی اور تعدیلِ ضمنی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ۔ 

( ملاحظہ فرمائیں: الکفایة في علم الروایة: 80، فتح المغیث للسخاوي،2/9، وغيره)

ثبوتِ ضبط:

ضبط كی دو قسمیں ہیں :

(١)  ضبطِ صدر،(٢) ضبطِ کتابت۔

ضبطِ صدر کی معرفت کے لیے پہلے مختلف طریقے رائج تھے، مثلا ً سندیں بدل کر محدث سے امتحان لینا،اوروقتاً فوقتاً محدث سے ایک ہی روایت کے متعلق پوچھنا وغیرہ۔ضبط ِکتابت کے لیے محدث کے  نسخہ کا اصلی نسخوں سے تقابل کرنا ،اور اس کے شیوخ کی کتب کی طرف مراجعت کرنا،  وغیرہ۔

لیکن ضبط کی معرفت کے لیے سب سے بنیادی اور اہم طریقہ "سبرِ  روایات " ہے ۔ یعنی راوی کی تمام مرویات  پر نگاہ ڈال کر ان میں غور کرنا ،جن روایات میں وہ   راوی، ثقات کی موافقت  یا مخالفت ہو انہیں الگ الگ کرنا،اور جن میں وہ   متفرد ہو انہیں جمع کرنا ، اور پھر ان کی بنیاد پر اس کے ضبط کا درجہ متعین کرنا ہے۔

متقدمین  و متاخرین محدثین کے نزدیک ضبط کی پرکھ کے لیے سب سے قوی طریقہ یہی رہا ہے۔

امام مسلم رحمہ اللہ تعالی مقدمہ صحیح مسلم میں فرماتے ہیں:

​"وعلامة المنكر في حديث المحدث، إذا ما عرضت روايته للحديث على رواية غيره من أهل الحفظ والرضا، خالفت روايته روايتهم، أو لم تكد توافقها، فإذا كان الأغلب من حديثه كذلك كان مهجور الحديث".

(مقدمة صحيح مسلم، ص:6، دار احياء التراث العربي)

اس عبارت میں ضبط كی پرکھ کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ راوی کی روایات، حفاظ و متقنین کی روایات پر پیش کی جائیں،  اس کی روایات اگر حفاظ کی روایات کے مخالف ہوں یا بہت کم موافقت ہو تو وہ راوی قابلِ ترک ہو گا،جس کا لازمی  نتیجہ یہ ہے کہ اگر روایات موافق ہوں تو روایت قبول ہوگی اور قوت ِضبط کی دلیل ہو گی۔

۲- جارح اور معدل كی صفات و شرائط:

اصولِ حدیث کی مختلف  کتب میں متفرق طور پر  جارح ومعدّل کی مختلف صفات ذکر کی گئی ہیں،  جن کا خلاصہ درجِ ذیل ہے:

​جارح اور معدل کابنیادی طور پر چار صفات کا حامل ہونا ضروری ہے:

(۱) وہ خود عادل ہو۔

(۲)  تعصب و تشدد،اور تعنت سے پاک ہو ، یعنی کسی مذہبی، شخصی،یافرقہ کے تعصب میں مبتلا ہو کرجرح و تعدیل کے فیصلے نہ کرتا ہو۔ 

(۳) بیدار مغز اور ہوشیار ہو، مغفل نہ ہو کہ راوی کی ظاہری حالت سے دھوکہ کھا جائے۔

(۴) جرح و تعدیل کے اسباب سے واقف ہو ،تاکہ کسی عادل کی تجریح ،اور مجروح کی تعدیل نہ کر سکے۔

(الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي، ص: 82، مكتب المطبوعات الإسلامية، ط:الثامنة، 1425۔ نزهة النظر في شرح نخبة الفكرلابن حجر، الخاتمة، ص: 138، مكتبة البشرى، 1438)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200796

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں