اگر کوئی شحص اپنی بیوی کو طلاق کے الفاظ ڈرانے کے لئے بدل کر دیتا ہوں "تنلانک" کہے تو اس سے طلاق واقع ہوجائیں گی؟
واضح رہے کہ اگر شوہر طلاق کے سلسلہ میں ایسے تبدیل شدہ الفاظ استعمال کرے،جو طلاق سے مناسبت رکھتے ہوں، مثلاً طلاق کے بجائے "طلاغ"،"تلاغ"،"تلاک"وغیرہ کہے، تو اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، لیکن جو الفاظ" طلاق" سے مناسبت نہ رکھتے ہوں، ایسے الفاظ کے استعمال سے طلاق واقع نہیں ہوتی، جیسے سائل کے ذکرکردہ الفاظ "تنلانک" وغیرہ تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی، شرعا یہ الفاظ مصحفہ میں داخل نہیں ہے۔
الدرمع الرد ميں ہے:
"باب الصريح
(صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال : إن خرجت يقع الطلاق أو لاتخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ، ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل ، وإن قال: تعمدته تخويفًا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى.۔۔ وقال الشامی: (قوله تعمدته) أي التصحيف تخويفا لها بلا قصد الطلاق."
(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق،ج:3، ص:249/سعید)
مجمع الانہر میں ہے :
"وفي المنية يدخل نحو " وسوبيا طلاغ، أو تلاع، أو تلاغ أو طلاك " بلا فرق بين الجاهل والعالم على ما قال الفضلي، وإن قال: تعمدته تخويفها لا يصدق قضاء إلا بالإشهاد عليه، وكذا أنت " ط ل اق "، أو " طلاق باش "، أو " طلاق شو " كما في الخلاصة ولم يشترط علم الزوج معناه فلو لقنه الطلاق بالعربية فطلقها بلا علم به وقع قضاء كما في الظهيرية والمنية."
(كتاب الطلاق، باب ايقاع الطلاق،ج:1،ص:386،ط:داراحياءالتراث)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144408100672
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن