بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تنخواہ نوکری کرنے والے کا حق ہے، اس کے بھائیوں کا اس میں کوئی حق نہیں


سوال

ایک گھرانے کو حکومت کی طرف سےنوکری    دی گئی تھی، اس گھرانے میں دو بھائی(زید اور بکر) شریک تھے، دونوں کے مشورہ سے  زید کے بیٹے کو  اس  بات کے تحت اس نوکری کے لیے نامزد کردیا گیا کہ  جو کچھ اس نوکری سے آئے گا وہ مشترک ہوگا،چھ سال تک   زید کا بیٹا اپنے چچا اور  بھائیوں کو حصہ دیتا رہا،  زید کے انتقال کے بعد  بھی اس کا بیٹا یہ رقم ضابطہ کے مطابق  دیتا رہا،  لیکن اب وہ نوکری کے پیسے اپنے چچا اور بھائیوں کو  دینے سے انکار  کر رہا ہے۔

نوٹ : حکومت کے  جس   محکمے کی طرف سے پیسے مل رہے  ہیں ، اسے نبڈار کہتے ہیں،  زید کے بیٹے کا ایک کارڈ بنا ہوا ہے،  تنخواہ اسی کارڈ پر صرف اسی کو ملتی ہے، اگر کام میں کوئی خرابی ہو تو   وہی ذمہ   دار ہوتا ہے ، اس کے علاوہ کوئی  اور نہیں۔

وضاحت: سائل کا اپنا کاروبار تھا ، اس میں دوسرے شخص کے پیسے  لگائے ہیں۔

جواب

 واضح رہے کہ حکومت کی طرف سے   جو نوکری دی جاتی ہے ، اس میں تنخواہ کا حق دار  کام کرنے والا شخص   ہی ہوتا ہے ، اس کے دیگر بھائی  وغیرہ اس نوکری کے تنخواہ  میں حق دار نہیں ہوتے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں نوکری کرنے والا شخص ایک ہی ہے اور اسی سے مذکورہ کام کےبارے میں پوچھ   گچھ ہوتی  ہے ، ، تو ایسی صورت میں تنخواہ کا حق دار بھی  یہی شخص   ہے ، دیگر بھائیوں اور چچا کا اس کی تنخواہ  میں کوئی حق نہیں ہے۔باقی جتنا عرصہ نوكری کرنے والے( زید کے بیٹے) نے اپنے بھائیوں اور چچا کو تنخواہ دی ہے وہ  اس کی طرف سے تبرع ہے، نوکری کرنے والے  کے بھائیوں اور چچا پر واپس کرنا  لازم نہیں۔

حديث شريف ميں هے:

"يا أيها الناس؛ تدرون في أي شهر أنتم؟ وفي أي بلد أنتم وفي أي يوم أنتم؟ قالوا: يوم حرام وشهر حرام وبلد حرام، قال: فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا، اسمعوا تعيشوا، ألا لا تظالموا ثلاثا، إنه ‌لا ‌يحل ‌مال ‌امرء مسلم إلا بطيب نفس منه"۔

(كنز العمال،5/ 130،ط:مؤسسة الرسالة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100416

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں