بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تنخواہ(income) میں سے 10 فیصد اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی منت ماننا


سوال

میں نے یہ منت مانی  تھی دل میں یہ ارادہ کر کےکہ اگر میری تنخواہ اتنی اتنی ہو جائے تو میں اپنی تمام انکم پر10 فیصد اللہ کے لیے خرچ کروں گا، اور اس پر عمل بھی  کیاالحمد للہ، لیکن اب حال ہی میں شدید مہنگائی کی اس لہر کے بعد 10 فیصد نکالنا مشکل ہو گیا ہے،  اپنے خرچے بڑی مشکل سے پورے ہو رہے ہیں، اس صورت حال میں کیا منت کی فیصد جو طے کی تھی اس پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے؟ مثلاً اگر میں یوں کروں کہ 10 فیصد کی بجائے اب5 فیصد نکالوں گا یا یوں کہوں کہ اب اپنے خرچے نکال کر جتنے بچیں گے اتنے نکالوں گا؟ کیا اس طرح کرنا جائز ہوگا؟ یا پھر رہنمائی فرمائیں اس مسئلے میں کیا کیا جائے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے زبانی طور پر یہ نذر مانی تھی  کہ "اگر میری تنخواہ اتنی اتنی ہو جائے تو میں اپنی تمام انکم میں سے 10 فیصد اللہ کے لیے خرچ کروں گا "،تو اتنی تنخواہ ہو جانے کی صورت میں  تنخواہ کا 10 فیصد اللہ تعالیٰ کے راہ میں  خرچ کرنا لازم ہوگا،البتہ اگر زبان سے اس کا تلفظ نہیں کیا تھا، بلکہ صرف دل میں  نیت کی تھی،تو نذر لازم نہیں ہوگی، اور سائل گنجائش کے بقدر صدقہ نکال سکتا ہے۔

مؤطا امام مالک میں ہے:

"عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ‌نذر أن يطيع الله فليطعه، ومن نذر أن يعصي الله فلا يعصه."

(كتاب النذور والأيمان، باب ما لا يجوز من النذور في معصية الله، ج:2، ص:476، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومن نذر نذرا مطلقا أو معلقا بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعا للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة) ... (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر) لحديث «‌من ‌نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى» (كصوم وصلاة وصدقة)."

(كتاب الأيمان، ج:3، ص:735، ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌فركن ‌النذر هو الصيغة الدالة عليه وهو قوله: " لله عز شأنه علي كذا، أو علي كذا، أو هذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة، ونحو ذلك."

(كتاب النذر، بيان ركن النذر وشرائطه، ج: 5، ص: 81، دار الكتب العلمية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144409101354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں