ماسی کی تنخواہ 5000 مقرر کی۔ 2700 روپے کرایہ بھی لگتا ہے؛ لہذا اس کو بتایا کہ تنخواہ کے 5000 کے علاوہ 2700 دیے جائیں گے، جو کہ تنخواہ کا حصہ نہیں۔ یہ 2700 روپے زکات یا صدقہ کی نیت سے دینے کا ارادہ ہے۔ کیا یہ طریقہ شریعت کے مطابق ہے؟
بصورتِ مسئولہ ماسی اگر مستحقِ زکات ہے، تو اسے تنخواہ کے علاوہ دی جانے والی اضافی رقم زکات کی نیت سے دینا درست ہے، اس سے زکات ادا ہوجائے گی، اور اگر اضافی رقم صدقہ کی نیت سے دی جائے تو صدقہ بھی درست ہوگا، تاہم زکات یا صدقہ کی وجہ سے ماسی سے زائد کام لینا جائز نہ ہوگا۔
مستحقِ زکات ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ماسی مسلمان بھی ہو اور اس کے پاس ضرورت و استعمال کی اشیاء (مکان، پہننے کے کپڑے، گھر کا سامان وغیرہ) کے علاوہ اتنا مال یا سامان نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچے، اور وہ سید/ عباسی خاندان سے تعلق نہ رکھتی ہو۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ومن أعطى مسكينًا دراهم وسماها هبةً أو قرضًا ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح، هكذا في البحر الرائق."
(الباب الاول فى تفسير الزكوة، ج:1، ص:171، ط:مكتبه رشيديه)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144203200503
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن