بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تنخواہ کی خرچ کردہ رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنا


سوال

میرے والد سرکاری ملازمت کے دوران انتقال کرگئے ،2009 میں ان کا کل ورثہ ایک  2منزلہ گھر تھا، جس میں ایک منزل بطور رہائش ،اور دوسری منزل کرایہ پر دی ہوئی تھی ابھی تک ،اورایک پلاٹ پشتنی جائیداد۔اس کے بعد گورنمنٹ سے گریجویٹی کی رقم ملی2010میں تو والدہ نے اس رقم سے ایک مکان خرید کر  کرائےپر دے دیا، 2011 میں میری نوکری گورنمنٹ قانون سن آف کوٹا کے تحت لگ گئی، جس سے میری آمدنی شروع ہوگئ، اس کے علاوہ والدہ کی پنشن بھی شروع ہو گئی،میری تنخواہ کا کافی حصہ والدہ نے میرے ساتھ باندھ لیا ،کہ یہ آپ نے دینا ہے،یہ کچھ بھی ہے تم لوگوں کا ہی ہے ،میں بھی دیتا رہا اس میں سے نا میں نے کبھی کچھ مانگا نا ہی والدہ نے کبھی دیا ،میرے تمام اخراجات میں خود ہی دیکھتا رہا، لیکن والدہ دوسرے بہن بھائیوں کو ہر چیز ان کی فرمائش پر دیتی رہتیں، یہاں تک کہ ان کی پڑھائی کی فیس کے علاوہ بھی دو بہنوں کی اور ایک بھائی کی شادی بھی کروادی ،میں نے شادی ابھی تک اس لیے نہیں کی، کیوں  کہ میرے پاس کوئی اختیارات نہیں تھے ۔

اب جبکہ 14 سال بعد میں نے اپنے حصے کا مطالبہ کیا، "تو پہلے تو کہا کچھ نہیں ہے تیرا ،پھر کہا کہ تمہیں ہم گاؤں والے مکان میں سے اور جس میں ہم رہ رہے ہیں اس کی قیمت لگاکر جو بنے گا ،جب ہماری مرضی ہوگی دے دیں گے، "میں نے کہا جو مکان والد کے گریجویٹی کے پیسوں سے لیا تھا ،اس کا کیا ہوگا تو کہا گیا اس پر ہم نے خرچہ کیا ہے، اگر اس میں سے دیں گے تو 2010 والے ریٹ پر دیں گے ،مزید یہ کہ میرا ایک چھوٹا بھائی مفتی بھی ہے اور جب میں نے وراثت کا مطالبہ کیا تو مجھ پر نافرمانی کے فتوے بھی لگانا شروع کردیے سب بہن بھائیوں نے ،میں نے محلہ کے ایک امام صاحب جو ہمیشہ والدہ کی طرف سے مجھے سمجھاتے رہتے تھے، ان سے کہا تو وہ آنے کو تیار ہوگئے ،لیکن والدہ نے کہا کوئی باہر والا نہیں آئے گا، حضرت میں تو ان کی گواہی کی موجودگی میں تنخواہ بھی دیتا رہا اپنے لیے کچھ نہیں بنایا ، اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ نہ وہ  مجھے ٹوٹل جائیداد میں سے دینے کو تیار ہیں اور سیلری الگ سےان کو میں دیتا رہا ، براہ کرم یہ واضح کردیں کہ میرا کیا حصہ ہوگا وراثت میں اور جو میں نے تنخواہ میں سے دیا، جبکہ اس وقت کسی کی کوئی آمدنی نہیں تھی سواۓ مکانوں کا کرایہ اور والدہ کی پنشن  کے۔

جواب

واضح رہے کہ والد کے ترکہ کے دو منزلہ گھر اور ایک پلاٹ میراث میں تقسیم  ہوگا، اس میں تمام ورثاء سائل سمیت اپنے شرعی حصے کے بقدر  حقدار ہوں گے، نیز جس وقت ترکہ کے  مکان اور پلاٹ کی تقسیم ہوگی، اس وقت کی مارکیٹ ویلیو  کے اعتبار ہر فریق کو اس کا حصہ دیا جانا ضروری ہے۔

گریجویٹی فنڈحکومت کی طرف عطیہ اور انعام ہوتا ہے ،لہذا یہ فنڈ  جس کے نام پرجاری ہوتاہے، شرعا وہی اس کا حقدار ہوتا ہے،اور   یہ فنڈ پورا کاپورا اسی  کو ملتا ہےترکہ میں تقسیم نہیں ہوتا،لہذا صورت مسئولہ میں  گریجویٹی فنڈ اگر والدہ کے نام پر جاری ہوا ہے، اور اس سے والدہ نے مکان لیا ہے، تو جب تک والدہ زندہ ہیں، تب تک سائل اور باقی بچوں  کا مذکورہ مکان  میں کسی قسم کا  کوئی حق نہیں ہے، لہذا  سائل یا کسی اور وارث  کا اس گھر سے  یا اس گھر کے کرایہ سے اپنے  حصے کا مطالبہ کرنا شرعاً صحیح نہیں ہے۔

سائل نے اب تک جو تنخواہ گھر والوں پر خرچ کی ہے، وہ سائل کی طرف سے گھر والوں پر احسان ہے، لہذا سائل شرعاً اس کو واپس کرنے کا مطالبہ نہیں کرسکتا، نیز سائل اگر شریعت کے دائرے میں رہتے ہوۓ اپنے میراث کے حصے کے مطالبہ  کرتا ہے، تو شرعاً والدہ کا نافرمان شمار نہ ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

" لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو ‌حق ‌للمورث على ما قال عليه الصلاة والسلام من ترك مالا أو حقا فهو لورثته."

(کتاب الحدود،57/7، ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

' الشركة في الأصل نوعان: شركة الأملاك، وشركة العقود وشركة الأملاك نوعان: نوع يثبت بفعل الشريكين، ونوع يثبت بغير فعلهما. (أما) الذي يثبت بفعلهما فنحو أن يشتريا شيئا، أو يوهب لهما، أو يوصى لهما، أو يتصدق عليهما، فيقبلا فيصير المشترى والموهوب والموصى به والمتصدق به مشتركا بينهما شركة ملك. (وأما) الذي يثبت بغير فعلهما فالميراث بأن ورثا شيئا فيكون الموروث مشتركا بينهما شركة ملك.'

(كتاب الشركة، أنواع الشركة، 56/6، ط: سعيد)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

" تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم .........  لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما، وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم."

(الکتاب العاشر: الشرکات،الباب الأول في بيان شركة الملك،الفصل الثاني في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،ج3،ص26،رقم المادة : 1073ط؛دار الجیل)

شرح المجلۃ  لسلیم رستم  باز میں ہے:

" الهدية هي المال الذي يعطى لأحد أو يرسل إليه إكراما له."

(الكتاب السابع في الهبة، المادة: 834، 366/1، ط: رشيدية)

موسوعۃ القواعد الفقہیہ ميں ہے:

"‌‌القاعدة الثّالثة والثّلاثون [التّبرّع]،

‌‌أولاً: لفظ ورود القاعدة: لا رجوع فيما تبرّع به عن غيره.

‌‌ثانياً: معنى هذه القاعدة ومدلولها:التّبرّع: هو إعطاء مجّاني دون مقابل. فمن دفع مالاً عن غيره بغير إذنه أو أوامره، فلا حقّ له في الرّجوع على مَن دفع عنه؛ لأنّه متبرّع.

 ‌‌ثالثاً: من أمثلة هذه القاعدة ومسائلها:إذا دفع وأدّى دين غيره بغير إذنه، ثمّ طالبه بما دفع، فلا حقّ له، وليس للمدفوع عنه أداء ما دفع، لأنّ الدّفع بغير إذن تبرّع، والمتبرّع لا يرجع.

ومنها: من دفع نفقة زوجة غيره، بغير إذن ولا قضاء - فلا رجوع له."

(حرف اللام،‌‌القاعدة الثّالثة والثّلاثون (التّبرّع)،‌‌ثالثاً: من أمثلة هذه القاعدة ومسائلها،868/8، ط:مؤسسة الرسالة، بيروت)

امداد الفتاوی میں ہے:

’’چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہیں تقسیم کردے۔‘‘

( کتاب الفرائض، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ، 343/4،ط: دارالعلوم)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501101711

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں