بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

تنخواہ دار پر بھی عدت کا نفقہ لازم ہے


سوال

اگر کوئی سرکاری ملازم بیوی کو طلاق دے تو ملازم پر کیا ذمہ داریاں اور پاپندی عائد ہوسکتی ہیں، جیسے:  بیوی کو کتنا روپیہ دینا ہوگا یا ملازمت والی تنخواہ میں طلاق شدہ بیوی کا کتنا حق ہے؟

جواب

طلاق دینے کی صورت میں عدت کا خرچہ شرعاً مرد کے اوپر لازم ہے، البتہ اس کی کوئی خاص مقدار متعین نہیں، بلکہ اس میں مرد اور عورت کی حالت کا اعتبار ہے۔ جتنا اس میں وسعت ہو اور عورت کی ضرورت پوری ہوسکے اسی کے بقد ر نان نفقہ واجب ہے۔ لہٰذا اپنی تنخواہ اور عورت کے ضروری اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے باہمی رضامندی سے خرچہ متعین کرلیا جائے۔عدت کے نفقے کے علاوہ شوہر کی تنخواہ میں بیوی کا حق نہیں ہے۔

مطلقہ اپنی عدت شوہر کے گھر پر ہی گزارے گی، اس دوران شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے اپنے گھر میں رہائش دے، تاہم اگر طلاقِ بائن دی ہو تو میاں بیوی کا تنہا ایک ساتھ  رہنا درست نہیں ہوگا، بلکہ کوئی بڑی عمر کی خاتون ان دونوں کے علاوہ گھر میں ہو  یا دونوں الگ الگ کمرے میں رہیں۔

 

مطلقہ اگر حمل سے نہ ہو اور اسے ایام آتے ہوں تو عدت تین ماہواریاں گزرنے تک ہے۔ اگر حمل سے ہو تو بچہ جننے تک عدت ہوگی۔ اور اگر بڑی عمر ہونے کی وجہ سے ایام آنا بند ہوگئے تو اس کی عدت تین ماہ ہوگی۔

قرآنِ کریم میں ہے: سورت الطلاق: ۶):

 

{أَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُّجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوْهُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْهِنَّ  وَ اِنْ کُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْهِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ... لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِه وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُه فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللهُ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا} [الطلاق:6و7]

ترجمہ: تم ان (مطلقہ) عورتوں کو اپنی وسعت کے موافق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو  اور ان کو تنگ کرنے کے لیے (اس کے بارے میں ) تکلیف مت پہنچاؤ اور اگر وہ (مطلقہ) عورتیں حمل والیاں ہوں تو حمل پیدا ہونے تک ان کو (کھانے پینے کا ) خرچ دو  ۔۔۔  (آگے بچہ کے نفقے کے بارے میں ارشاد ہے کہ ) وسعت والے کو اپنی وسعت کے موافق (بچہ پر) خرچ کرنا چاہیے اور جس کی آمدنی کم ہو اس کو چاہیے کہ اللہ نے جتنا اس کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرے، خدا تعالیٰ کسی شخص کو اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا جتنا اس کودیا ہے ۔ خدا تعالیٰ تنگی کے بعد جلدی فراغت بھی دے گا (گو بقدر ضرورت وحاجت روائی سہی) ۔
فائدہ:  یعنی عدت میں سکنی بھی مطلقہ کا واجب ہے ، البتہ طلاق بائن میں ایک مکان میں خلوت کے ساتھ دونوں کا رہنا جائز نہیں،  بلکہ حائل ہونا ضرور ہے۔ (ترجمہ و فائدہ از بیان القرآن)
فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"ويعتبر في هذه النفقة ما يكفيها وهو الوسط من الكفاية وهي غير مقدرة؛ لأن هذه النفقة نظير نفقة النكاح فيعتبر فيها ما يعتبر في نفقة النكاح". (الهندیة، 1/558) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں