میں ایک فیکٹری میں بطور ِ چوکیدار ملازمت کررہا ہوں اور میری تنخواہ 27000 روپے ہے اور ڈیوٹی بارہ گھنٹے ہے، جب کہ حکومت پاکستان کی طرف سے 12 گھنٹوں کی مقررہ تنخواہ 77000 روپے ہے۔ 27000روپے تنخواہ سے میرے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے تو میں ان بارہ گھنٹوں میں سے چار سے پانچ گھنٹوں تک اسی کمپنی میں آرام کرتا ہوں۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ تنخواہ جو ستائس ہزار روپے ہے، اس کا میرے لیے کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کا مذکورہ فیکٹری میں چوکیداری کی ملازمت کے لیے ابتدا میں جو معاہدہ ہوا، کام کا جتنا وقت اور جو ذمہ داری طے ہوئی ہے، اس کی پابندی لازم ہے، اتنا وقت فیکٹری کی امانت ہے، اتنا وقت فیکٹری کو دینا اور اس میں مفوّضہ کام کرنا شرعاً لازم ہے، اور جو اس وقت اور کام کی تنخواہ باہمی رضامندی سے طے ہوئی ہے ،وہ تنخواہ سائل کا حق ہے، ادارے کے ذمہ وہ تنخواہ دینا لازم ہے۔
اگر سائل کو یہ لگتا ہے کہ اس کی تنخواہ کم طے ہے تو وہ اپنے مالکان سے بات کرکے تنخواہ بڑھانے کا کہہ سکتا ہے، لیکن اس بنیاد پر اس کے لیے کام میں کوتاہی کرنا جائز نہیں ہوگا، اگر کوتاہی کرے گا( مثلاً کام کے وقت دوران سوجائے گا اور مجاز انتظامیہ کی طرف سے اس کی اجازت نہ ہو ) تو اس کوتاہی کے بقدر تنخواہ حلال نہیں ہوگی۔
البتہ اگر اس کی ادارے کے مالکان یا مُجاز انتظامیہ کی طرف سے تین چار گھنٹہ آرام کی اجازت ہے تو اس کے لیے اجازت کے بقدر آرام کرنا جائز ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.
(قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."
(کتاب الإجارۃ،6/ 70، ط:سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144606101864
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن