بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تنخواہ پر زکات کا حکم


سوال

ہر ماہ تنخواہ  کی بچت پر کس طرح زکات دی جائے؟ یعنی زکات کے لیے بچت پر سال مکمل ہونا ضروری ہے ؟

کیا رمضان سے ایک یا دو ماہ پہلے کی بچت پر زکات فرض ہے؟

جواب

زکات فرض ہونے کے  لیے صاحبِ نصاب ہونا شرعًا ضروری ہے، یعنی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا کچھ سونا کچھ چاندی، یا ضرورت سے زائد نقدی یا مال تجارت جس کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی یا زائد ہو، ہونا ضروری ہے، لہذا اگر کوئی شخص صاحبِ  نصاب ہو تو زکات کا سال مکمل ہونے پر اس کے پاس موجود  کل مال نصاب کا چالیسواں حصہ بطور زکات ادا کرنا لازم ہوتا ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر سائل پہلے سے صاحبِ  نصاب ہو تو تنخواہ کی بچت کو نصاب میں شامل کرکے زکات ادا کرے گا، خواہ اس بچت پر سال گزرا ہو یا نہ ہو، البتہ اگر وہ پہلے سے صاحبِ نصاب نہ ہو تو تنخواہ کی بچت پر اس وقت تک زکات واجب نہ ہوگی  جب تک کہ بچت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی نہ ہوجائے، اور اس پر سال نہ گزرجائے۔

باقی سال کے درمیان ہر ماہ کی تنخواہ کی بچت پر مستقل طور پر سال گزرنا ضروری نہیں ہے،  جیساکہ سال کے درمیان خرچ کی جانے والی رقم کا حساب رکھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ جس وقت نصاب کا سال مکمل ہو، اس وقت جتنی رقم بنیادی اخراجات اور واجب الادا قرضوں سے زائد ہو اور نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہو، اس پر زکات واجب ہوگی، لہٰذا اس صورت میں سال پورا ہونے سے ایک دو ماہ پہلے کی بچت پر بھی زکات فرض ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں