بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تنخواہ کی رقم پر زکوۃ کا حکم


سوال

 میں سرکاری ملازم ہوں، مجھے جو مہینے کی تنخواہ ملتی ہے، اس پر زکوۃ فرض ہے؟ اگر ہے تو طریقہ کار بتائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کے پاس تنخواہ میں سے اتنی رقم باقی رہتی ہو جو بقدرِ نصاب (ساڑھے باون تولہ  چاندی کی قیمت کے برابر)ہو اور اس پر سال گزر جائے،تو اس پر اڑھائی فیصد زکوۃ لازم ہوگی۔

اسی طرح اگر تنخواہ سے بچنے والی رقم (تنہا) تو ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر نہیں ہے، تاہم کوئی دوسری رقم سائل کی ملکیت میں موجود ہے یا سونا یا چاندی موجود ہے، یا تجارت کا مال موجود ہے، اور ان سب چیزوں کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہوجاتی ہے تو سال مکمل ہونے کے بعدان سب چیزوں کی زکوۃ سائل پر لازم ہوگی، اور اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر نہ ہو بلکہ کم ہو تو زکوۃ لازم نہیں ہوگی، اسی طرح  تنخواہ کی جو رقم سال مکمل ہونے سے پہلے خرچ ہوجائے، اس پر بھی زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها كون المال نصابا) فلا تجب في أقل منه هكذا في العيني شرح الكنز."

(کتاب الزکوۃ، ج: 1، ص: 172، ط: رشیدیہ)

و فیہ ایضاً:

"(ومنها حولان الحول على المال) العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية۔"

(کتاب الزکوۃ، ج: 1، ص: 175، ط: رشیدیہ)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100535

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں