بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تنخواہ کی بازیابی کے لیے وظیفہ


سوال

اسکول کے پرنسپل سے اپنی تنخواہ کیسے نکلوائیں؟ کوئی وظیفہ بتادیں ۔

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے ملازمین کی  حیثیت اجیر خاص کی ہے،اور جو ان کو اجرت پر لیتا ہے ،شریعت مطہرہ نے اس پر اس بات کو  لازم وضروری  قرار دیا ہے کہ وہ مزدور سے کام لے کر اس کی مزدوری پوری کی پوری اس کے حوالے کرے ،ورنہ ایسے لوگ شریعت کے نظر میں ظالم وغاصب اور اللہ کی نظر میں مبغوض شمار  ہوتے ہیں ۔

حدیث شریف میں ہے " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تین آدمی ایسے ہیں  کہ قیامت کے دن میں خود ان سے جھگڑوں گا؛  ایک وہ شخص  ہے جس نے میرے نام کی قسم کھائی پھر وہ قسم توڑ ڈالی،  دوسرا وہ آدمی ہے جس نے کسی آزادم کو پکڑ کر فروخت کردیا پھر اس کی قیمت کھا گیا، تیسرا وہ آدمی جس کو کسی نے مزدوری پر لگایا اور اس سے پورا کام لیا مگر اس کو مزدوری نہ دی۔"

دوسری روایت میں ہے "  حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ   روایت کرتے ہیں کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " مزدور کو اس کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔(یعنی جب مزدور اپنا کام پورا کر چکے تو اس کی مزدوری فوراً دے دو، اس میں تاخیر نہ کرو)۔"

اسی طرح  دوسرے کا حق ادا کرنے میں تاخیر کرنے والوں کو ظالم قرار دیتے ہوئے ،"رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مال دار کی طرف سے ( قرض کی ادائیگی میں ) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔"

لہذا مذکورہ پرنسپل پر لازم وضروری ہے کہ جب ملازمین  اپنی ڈیوٹی صحیح طور پر  انجام دے دیں ، سب ملازمین یا جس ملازم کی تنخواہ نہیں دے رہا (سائل یا کوئی بھی)،اس کو تنخواہ وقت پر دے ،ورنہ سخت گنہگار ہو گا ۔

سائل کو چاہیے کہ  تنخواہ کی وصولی کے لیے پرنسپل سے نرمی سے بات کرے ،ورنہ  افسران بالا تک رسائی حاصل کر کے اپنی تنخواہ کی بازیابی کے لیے کوشاں ہو ،اور ساتھ نماز کے بعد دعاؤں کا اہتمام بھی کرے کہ اللہ تعالیٰ پرنسپل کا دل نرم کرے ۔

اور ساتھ ساتھ اس دعاکا اہتمام کرے :

"رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَ (85) وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَافِرِيْنَ."(سورۃ يونس : 85 ، 86)"

(اے ہمارے پروردگار! ہم کو ظالم لوگوں کے ظلم کا تختۂ مشق نہ بنا، اوراپنی رحمت سے ہم کو ان لوگوں (کے پنجہ) سے نجات دے جو کافر ہیں۔)

مشکاۃ شریف میں ہے :

" وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قال الله تعالى: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر ورجل باع حرا فأكل ثمنه ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعطه أجره ،رواه البخاري". 

(مشكاة المصابيح ، كِتَابُ الْبُيُوعِ، ‌‌بَاب الْإِجَارَة،‌‌الْفَصْل الأول،2/ 899 ، ‌‌ ط: المكتب الإسلامي ، بيروت)

و فيه أيضا (2/ 900):

" وعن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه» . رواه ابن ماجه."

مسلم شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة؛إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال (‌مطل ‌الغني ظلم، إذا أتبع أحدكم على ملء فليتبع)."

(کتاب المساقاۃ،باب تحریم مطل الغنی،ج3،ص1197،ط:دار إحياء التراث العربي)

الاختیار لتعلیل المختار  میں ہے:

"ولأن حرمة مال ‌المسلم ‌كحرمة ‌دمه. قال - عليه الصلاة والسلام -: «كل المسلم على المسلم حرام: دمه، وعرضه، وماله» . وقال - عليه الصلاة والسلام : لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه."

(الاختيار لتعليل المختار، كتاب الغصب 3/ 59 ط: مطبعة الحلبي القاهرة)

فتاویٰ شامی میں ہے :

"مطلب في قولهم: يقدم حق العبد على حق الشرع. (قوله: لتقدم حق العبد) أي على حق الشرع لا تهاوناً بحق الشرع، بل لحاجة العبد وعدم حاجة الشرع ألا ترى أنه إذا اجتمعت الحدود، وفيها حق العبد يبدأ بحق العبد لما قلنا؛ ولأنه ما من شيء إلا ولله تعالى فيه حق، فلو قدم حق الشرع عند الاجتماع بطل حقوق العباد".

 (کتاب الصلوۃ،2/ 462،ط:سعید)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144506102788

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں