بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تنخواہ کی رقم پر زکاۃ کا حکم


سوال

اگر آپ پہلے سے صاحبِ نصاب ہیں یعنی زکاۃ دیتے چلے آئے ہیں اس صورت میں زکاۃ کی ادائیگی کے دن آپ کی تنخواہ کی رقم میں سے جتنی رقم آپ کے پاس محفوظ ہوگی اس رقم کو مجموعی مال کے ساتھ ملائیں گے اور زکاۃ ادا کریں گے۔اور تنخواہ کی رقم میں سے جس قدر رقم خرچ ہوگئی ہو اس پر زکاۃ نہیں ہے، نیز زکاۃ کی ادائیگی کی تاریخ تک آپ پر جو واجب الادا ءقرض یا بل ہو وہ اس میں سے منہا کیا جائے گا۔ اگر آپ پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں ہیں اس صورت میں تنخواہ کی رقم میں سے اخراجات کے بعد جو بچت ہوگی، یہ رقم نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت)کے برابر یا اس سے زیادہ ہو اور چاند کے اعتبار سے سال پورا ہونے پر بھی نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ مالِ زکاۃ موجود ہو تو سال پورا ہونے کے بعد زکاۃ واجب ہوگی۔ اگر تنخواہ کی رقم ماہانہ خرچ ہوجاتی ہے، کچھ بچتا نہیں یا کچھ بچتا ہے، لیکن نصاب کے برابر نہیں اور یہ شخص کسی اور قابلِ زکاۃ مال (سونا، چاندی، مالِ تجارت) کے اعتبار سے بھی صاحبِ نصاب نہیں تو زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔ (زکوۃ کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا،ص:123بیت العمار)فقط واللہ اعلم سوال:

تنخواہ کی رقم سے ایک سال بعد جو رقم بچ جائے اور وہ رقم نصاب سے زائد ہو تو اس پر زکوٰۃ ڈھائی فیصد کی شرح سے ادا کرنی ہو گی یا پیدوار تصور کر کے دس فیصد (عشر).؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ  بچی ہوئی رقم کو بھی نصاب کے باقی مال کے ساتھ ملا کر  ڈھائی فیصد کے اعتبار سے زکاۃ ادا کی جائے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إذا قبض منه شيئا وعنده نصاب يضم المقبوض إلى النصاب ويزكيه بحوله، ولا يشترط له حول بعد القبض."

(باب زکاۃ المال، جلد۲، ص:۳۰۶، ط: سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101131

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں