میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ ہم پرفیوم کی دکان کھولتے ہیں، میں انویسٹمنٹ کروں گا، آپ دکان چلائیں گے، دکان کھول لی گئی، دکان کا کرایہ، میری تنخواہ ایک اور ملازم کی تنخواہ، بجلی کا بل وغیرہ تمام اخراجات منافع کی رقم سے ادا ہوتے تھے۔ کاروبار میں نفع ہوا تو میرے دوست (انویسٹر) نے کہا دکان چھوٹی ہے، بڑی دکان کھولتے ہیں ، مال کا کنٹینر میں منگوا کر دیتا ہوں، لہذا دوسری دکان کھولی گئی اس میں بھی میں بطور ملازم کام کرتا رہا، لیکن میرا دوست (انویسٹر) مال کا کنٹینر منگوانے سے قاصر رہا اور دکان نقصان میں چلی گئی ، اب میرا دوست (انویسٹر) کا کہہ رہا ہے کہ مالی نقصان کا ذمہ دار میں ہوں اور اس کی تلافی میرے ذمے ہے، حالانکہ میں تو ایک ملازم کی حیثیت سے کام کررہا تھا میں نےکوئی پیسہ انویسٹ نہیں کیا تھا، قرآن وسنت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں کہ اس نقصان کی تلافی میرے ذمے ہے یا میرے دوست (انویسٹر )کے ذمے ہے؟
واضح رہے کہ کسی بھی کاروبار سے حاصل شدہ نفع یا نقصان میں سرمایہ لگانے والے شرکاء اپنےحصص کے بقدر شریک ہوتےہیں، کاروبار /دکان کے تنخواہ دار ملازمین صرف اپنی مقررہ تنخواہ کے حق دار ہوتے ہیں ، كاروبار كے نفع نقصان كےساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
صورتِ مسئولہ میں سائل اپنے دوست کے پرفیوم کی دکان میں اگر واقعۃً تنخواہ دار ملازم کی حیثیت سے کام کر رہا تھا، سائل کی ماہانہ تنخواہ بھی مقرر تھی اور کاروبار/ دکان کے سرمایہ میں سائل کا کوئی حصہ شامل نہیں تھا تو ایسی صورت میں سائل اور مذکورہ دوست کے درمیان مذکورہ معاملہ "اجارہ" کا معاملہ ہوا، لہذا اس کاروبار /دکان میں نقصان ہونے کی صورت میں نقصان كي تلافي صرف اس کاروبار/دکان میں سرمایہ لگانے والے(انویسٹر سائل کادوست) پرلازم ہے،سائل کو نقصان کے ذمہ دار قرار دے کر اس نقصان کی تلافی سائل پر لازم کرنا شرعاً جائز نہیں۔
"المحيط البرهاني"میں ہے:
"والأجير الخاص: من يستحق الأجر بتسليم النفس. وبمضي المدة، ولا يشترط العمل في حقه لاستحقاق الأجر...من حكم الأجير الخاص، أن ما هلك على يده من غير صنعه فلا ضمان عليه بالإجماع، وكذلك ما هلك من عمله المأذون فيه فلا ضمان عليه بالإجماع."
(كتاب الأجارات،الفصل الثامن والعشرون: في بيان حكم الأجير الخاص والمشترك،ج:7،ص:586،ط:دار الكتب العلمية)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101218
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن