بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تنخواہ دار ملازم کے صاحبِ نصاب ہونے اور زکوٰۃ کا سال پورا ہونے کی تفصیل


سوال

ایک بندے کے پاس پورے سال کے دوران کبھی نصاب سے کم رقم ہوتی ہے کبھی زیادہ،   مثال کے طور پر ایک  ملازم کو تنخواہ مہینے کے شروع میں ملتی ہے تو وہ صاحبِ نصاب ہو جاتا ہے اور مہینے کے آخر میں نصاب سے کم ہو جاتی ہے،   اس کا وہ کیسے حساب کرے کہ پورا سال اس کے پاس کتنی رقم ضرورت سے زائد رہی ہے؟  کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سال کے دوران کم از کم رقم کو شمار کرنا ہے کچھ کہتے ہیں کہ زکوٰۃ دینے کی تاریخ پہ جتنی رقم پڑی ہے وہ شمار ہو گی؟

جواب

واضح رہے کہ زکات  صاحبِ نصاب شخص پر سال پورا ہونے پر لازم ہوتی ہے۔  اور  صاحبِ نصاب ہونے اور سال پورا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ  جس وقت بھی کسی عاقل بالغ مسلمان مرد یا عورت کے پاس اپنی بنیادی ضرورت (رہائش کا مکان، سواری، گھر  اور ذاتی استعمال کا سامان، ماہانہ راشن اور مختلف بلز کی مد میں واجب الادا اخراجات اور قرض وغیرہ ) سے زائد  ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی رقم موجود ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو،  یا مالِ تجارت ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا مذکورہ اموال (سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت) میں  سے کوئی دو یا تین یا چاروں  میں سے کچھ کچھ اتنی مقدار میں ہوں کہ ان کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو یہ شخص صاحبِ نصاب ہے، اور اسی وقت سے اس کا سال شروع ہوجائے گا، لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ تاریخ نوٹ کرلے، اور قمری اعتبار سے جب اس تاریخ پر پورا سال گزر جائے تو اس وقت اپنے موجودہ اثاثوں  اور ملکیت کا حساب کرے، اگر اس وقت  واجب الادا اخراجات اور قرض نکال کر موجودہ اموالِ زکات  (سونا، چاندی، نقدی یا مالِ تجارت)  نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہوں تو اس پر کل موجودہ مال کا ڈھائی فیصد بطورِ زکات ادا کرنا واجب ہوگا۔

سال کے درمیان آنے والے رقوم کا حساب رکھنا ضروری نہیں ہوگا، البتہ اگر سال کے درمیان رقم بالکل ختم ہوکر صفر ہوگئی تو اب اس کے بعد جب بھی نصاب کے بقدر مال آئے گا تو مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق اس کے سال کا اعتبار ہوگا؛ لہٰذا صاحبِ نصاب شخص کی  ملکیت  میں  سال کی ابتدا اور انتہا  میں نصاب مکمل ہو ، اگر چہ  درمیان سال میں نصاب مکمل نہ ہو، تو بھی زکات واجب ہوگی، ہاں اگر درمیان سال میں رقم بالکل ختم ہوجائے تو پھر از سر نو  سال شروع ہوگا۔

اگر کسی تنخواہ دار ملازم کی تنخواہ اتنی ہو کہ جب وہ تنخواہ ملے تو وہ  اس کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال ہوجاتا ہو تو اس حوالے سے یہ ملحوظ رہے کہ صرف تنخواہ کی رقم ملنے سے  آدمی صاحبِ نصاب شمار نہیں ہوگا، بلکہ صاحبِ نصاب بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ رقم  ضرورت و استعمال سے زائد بھی ہو، لہٰذا جو رقم ماہانہ ضروری اخراجات  (مثلًا: گھر کے راشن، یوٹیلیٹی بلز اور مختلف فیسوں وغیرہ)  میں صرف ہوجاتی ہے، یا مہینے کے آخر تک باقی نہیں رہتی، اسے نصاب میں شامل نہیں کیا جائے گا، بلکہ ضروری اخراجات منہا کرنے کے بعد جو رقم زائد ہو، اس کا حساب لگا کر اگر کوئی صاحبِ نصاب ہوگا تو اس کا سال شروع ہوجائے گا، اور اگر ماہانہ اخراجات وغیرہ نکالنے کے بعد اتنی رقم نہ بچتی ہو کہ وہ صاحبِ نصاب بن سکے تو یہ شخص صاحبِ نصاب ہی نہیں ہوگا اور اس پر زکات بھی واجب نہیں ہوگی۔

بہرحال آسان طریقہ یہ  ہے کہ جس دن آپ صاحبِ نصاب ہوں چاند کی وہ تاریخ نوٹ کرلیں، اور اگر صاحبِ نصاب ہوئے عرصہ گزرگیا ہو اور آپ کو کسی طرح بھی اندازا نہ ہو کہ آپ چاند کی کس تاریخ کو صاحبِ نصاب ہوئے تھے، تو اندازے سے ایک تاریخ مقرر کرلیں( مثلاً: یکم رمضان المبارک طے کرلیں کہ یہ آپ کی زکات  کا سال مکمل ہونے کا دن ہے) پھر ہر سال اس دن اپنے تمام قابلِ زکات اثاثوں (سونا، چاندی، نقدی، مال تجارت کی قیمت فروخت) کی مالیت کی تعیین کریں، اس میں سے اپنے اوپر واجب الادا اخراجات مثلاً جو ادائیگیاں باقی ہیں یا دیگر قرض وغیرہ منہا کریں،  اور اس کے بعد جتنی مالیت بچے اس کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد زکات  ادا کردیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202713

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں